Connect with us

بلاگ

آزاد پاکستان اور آزاد ہندوستان کے درمیان ڈوبتا گلگت بلتستان

ایک بہت ہی سادہ سی بات ہے۔ گلگت بلتستان کے دو ملین باشندے آئینی حقوق چاہتے ہیں! لیکن کس آئین میں حقوق؟ آئین پاکستان میں؟

Published

on

Hussain Ali Shah - Blogger from Gilgit-Baltistana and Chitral

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے۔ کہ مملکت پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ وہ گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں شامل کرکے اس سے پاکستان کا حصہ بنائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم پاکستان کے آئین میں شامل نہیں اور نہ شامل ہو سکتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کے اندر آئینی حقوق کی تحریکیں دم توڑ گئی۔

اب دوسری سادہ سی بات۔ پھر حقوق کس طرز کے؟ دیکھنا یہ ہوگا کہ اتنا دباو، اور خود وزیراعظم پاکستان کے اعلان کے باوجود گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں بن سکا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہے اس علاقے کا متنازعہ ہونا۔ اور اس متنازعہ حیثیت کا عالمی سطح پر تسلیم ہونا۔ اسی لئے پاکستان ہندوستان یا پھر چائینہ اس کی عالمی حیثیت کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہمیں چاہئے کیا؟ نہ ہم مکمل طور پر پاکستانی آئین میں شامل ہیں اور نہ ہم مکمل طور پر کسی اور ملک کے آئینی شہری ہیں۔ تو پھر ہم ہیں کون اور ہمیں چاہئے کیا؟ ہماری شناخت اور ہمارا تحفظ کیا ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ ہمیں آئینی تحفظ حاصل ہو اور دوسرے شہریوں کی طرح ہمارے منتخب نمائندے ہی ہمارے لئے قانون سازی کرے؟

بالاورستان نیشنل فرنٹ کے سپریم لیڈر نواز خان ناجی صاحب کا کہنا ہے کہ لداخ سے لیکر چترال تک اس خطے میں ایک قوم بستی ہے۔ اور اُس نے اِس قوم کو بالاور قوم کا نام دیا۔ اسی قوم کی قانونی لڑائی لڑنے کے لئے ناجی صاحب نے بالاورستان نیشنل فرنٹ بنائی اور ثابت قدمی کے ساتھ آج تک سیدھی اور صاف بات کہتے آرہے ہیں۔ کبھی حالات اس تحریک کے حق میں رہے کبھی نہیں۔

لیکن اس تحریک نے کبھی بھی مسلح جدوجہد کو پسند نہیں کیا اور نہ کبھی اس کے حق میں رہے۔ پھر دوسری چھوٹی چھوٹی تحریکیں بھی ہیں جو گلگت بلتستان کی اس متنازعہ حیثیت کے لئے کام کررہی ہیں۔ جہاں وہ اپنے لوگوں کو مشکل میں ڈالے بغیر ان کی رہنمائی کرتی آرہی ہیں۔ آج قوم کی ترقی یافتہ تعریف میں ایک خطے میں بسنے والے مختلف رنگ نسل اور مختلف زبانوں کے حامل لوگ جو ایک جگہ آباد ہوں جن کے مفادات مشترک ہوں وہ ایک قوم کہلاتے ہے۔ اور وہی اپنی شناخت کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کی مشکلات اور آسانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان کے اندر بسنے والی اس قوم کو کیا آخر کیا چاہئے؟

سب سے پہلے تو شناخت کا نہ ہونا ہی سب سے بڑا مسلہ ہے۔ یہاں پہ بسنے والے لوگ ایک قوم ہیں اور اس سے دنیائے عالم کے سامنے منوانا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ ہماری شناخت اور ہماری تحفظ آئینی اور قانونی ہونا ضروری ہے۔ ہماری عدلیہ آزاد ہو اور کسی آرڈر کے زیر تسلط نہ ہو۔ یہاں کے لوگوں کو اپنے منتخب نمائندوں کے زریعے بغیر کسی دباو کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہئے۔ یہاں کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات اُن کے گھر پہ میسر ہونی چاہئے۔

یہ بالکل قابل قبول نہیں کہ ایک ملک کے کونے میں کوئی فیصلہ ہو اور من و عن اس کو یہاں کے عوام پہ مسلط کر دیا جائے۔ اور پھر اُن کو اِن فیصلوں پر من و عن عمل کرنے کا دباو رکھا جائے۔ گلگت بلتستان کے ایک نام، ایک شناخت ایک پہچان کو حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑا مسلہ یو این کی قراردادیں ہیں۔ ان قراردادوں کے زریعے جس حل کی نشاندہی کی گئی اور جس سے پاکستان اور ہندوستان دونوں عمل کرنے کے پابند ہیں انہی قرادادوں کے تحت ہی اس خطے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان اس کو اپنا حصہ نہیں بنا سکا تو اس کی وجہ بھی یہی قراردادیں ہیں۔ انہی قراردادوں کو سامنے رکھا جائے تو گلگت بلتستان کے اندر صوبہ بناو تحریکیں اُبھر رہی تھی وہ سب ڈھونگ اور ناکام تھی جن کا ابھی مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔

اس کے علاوہ کشمیر کی قیادت نے بھی ایسی تحریکوں کی کھل کر مخالفت کی۔ بجائے یہاں کے لوگ اپنی تحریکوں پہ نظر ثانی کرتے وہ کشمیر کے عوام کے ساتھ دشمنی کی حد تک چلے گئے۔ یہاں کی عوام یہ سوچے بغیر کہ پاکستان اور ہندوستان کیا چاہتے ہیں؟ کشمیری قیادت کا کیا موقف ہے؟

اِس بات پہ زیادہ ذور دیتے کہ یونائیٹیڈ نیشن کیا کہتا ہے۔ عالمی سطح پہ گلگت بلتستان کی حیثیت کیا ہے؟ تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ 72 سال ایسی ناکام تحریکوں پہ ضائع کرنے کے بجائے، متنازعہ حیثیت کی اصل روح کے مطابق تحریک کا آغاز کرتے تو شاید آج تک ہم گلگت بلتستان سمیت پورے کشمیر کے حقوق کی قیادت کررہے ہوتے۔ آج بھی وقت ختم نہیں ہوا ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسل کو ایک خود مختار اور آزاد ماحول میں زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے۔

ہمیں آج اپنی تمام تحریکوں کو سمیٹ کر ایک مظبوط تحریک کا آغاز کرنا چاہئے جو عالمی قوانین کے عین مطابق جو آزاد ہندوستان اور آزاد پاکستان کی اصلی قیادت کو بھی قابل قبول ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم آزاد پاکستان اور آزاد ہندوستان کے درمیان ڈوبتے گلگت بلتستان کو جلدی بھنور سے باہر نکالنا چاہئے۔ ورنہ مستقبل میں ہماری کوئی نشانی باقی نہیں رہے گی۔

حسین علی شاہ کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے ہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک نجی بینک میں کام کرتے ہیں۔ انھیں سوشل میڈیا پر بلاگ لکھنے کا شوق ہے۔

Advertisement
Click to comment

بلاگ

گلگت چترال روڈ

Published

on

سنہ 2000ء میں بننے والے اس سڑک کی حالت اب قابلِ رحم ہے اور قابلِ غور بھی ہے کبھی کہتے ہیں یہ سڑک ملک پاکستان کے سب بڑے پراجیکٹ سی پیک میں شامل ہے تو کبھی کہتے ہیں یہ تاجکستان سے پاکستان آنے والے روڈ کا حصہ ہے کبھی تو اس کے ٹینڈر بھی ہونے کی خبر بھی پھیلتی ہے تو کبھی افتتاح کے فیتے بھی کاٹے جاتے ہیں مگر حقیقت کا پتا نہیں۔

2010ء میں آنے والے سیلاب نے اس سڑک کو مکمل طور پر متاثر کیا کئی دنوں بعد سڑک ٹریفک کے لئے بحال ہو گیا مگر کئی جگہوں میں کھڈے ایسے رہ گئے اور بچی کثر کو بعد میں آنے والے زلزلے نے پورا کیا جس کے بعد گاڑیوں کے لئے بحال کیا مگر مکمل مرمت نہیں ہوئی۔ اسی سڑک میں سینکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں سیلاب “لینڈ سلائیڈنگ” ہو ہی جاتی ہے جب وقت ہوتا ہے اور اس سڑک پہ اتنے زیادہ موڑ ہیں جیسے کسی بچے نے سفید کاغذ پہ پینسل سے ٹیڑھی لکیریں کھینچی ہو اس رستے سے دن میں سینکڑوں پیسنجر گاڑیاں گزرتی ہیں۔

ایمرجنسی مریضوں کو وقت پہ ہسپتال پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے “کانڇی موڑ” علاوہ بھی کئی جگہے ہیں جہاں مٹی کے تودے اور بڑے پتھر کسی وقت گاڑی کے چلنے سے زمین میں جو وائبریشن ہوتی ہے اس سے گرے تو کوئی حادثہ ہو سکتا ہے اور یہ وہی سڑک ہے جسے چترال روڈ کہا جاتا ہے دنیا کا بلند ترین پولوگراونڈ گراؤنڈ اور میلہ شندور کے لئے یہاں سے گزرنا ہوتا ہے نہایت خوبصورت پھنڈر ویلی بھی یہاں واقع ہے کارگل مارکہ میں نشان حیدر لینے والے گلگت بلتستان کا بہار بیٹا لالک جان کے مزار کے لئے بھی یہاں کے گزر کے جانا ہے۔

حالیہ دنوں ہونے والے سنو فیسٹیول ” خھلتی جھیل” جو کہ سردیوں میں اس جھیل پہ برف جم جاتا ہے اور اپنی خوبصورتی کی طرف مائل کرتی ہے مگر کوئی آئے تو کیسے اس سڑک کے خستہ حال کی وجہ سے ٹورسٹ کا رخ یہاں کی طرف کم ہے اگر یہ ہائی وے بن جاتا ہے تو کئی سیاحوں کا رخ اس طرف ہوگا اور مقامی لوگوں کی زندگیاں بھی آسان ہوں گی کسی نے کہا ہے علاقے کی ترقی میں اچھے سڑک کا کردار ہوتا ہے۔

ضلع غذر ابادی کے لہاظ سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور ضلع غذر کو شہیدوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ضلع غذر اک خوبصورت ضلع یہاں سیاح آتے تو ہیں مگر کم اس کی وجہ یہی سڑک اک مہینہ پہلے بھی افتتاح کیا مگر اب تک کوئی پتا نہیں۔

Continue Reading

بلاگ

ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے اور جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) کی کاوشیں

Published

on

جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا

آج ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے ہے  اور آج کے دن کو تھیلیسیمیا کی آگاہی کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) پچھلے دس سالوں سے اس دن کے حوالے سے پورے پاکستان میں تھیلیسیمیا کی آگاہی کے لئے تقریبات کرتی رہی ہے- اس سال چونکہ لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں-

اور ان حالات میں تقریبات کو عمل میں نہیں لایا جا سکتا- تو اس سال ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے پرہم چاہتے ہیں  کہ میڈیا چینلز اور اخبارات کے زریعے لوگوں تک  تھیلیسیمیا آگاہی کا پیغام پہنچایا جائے۔ آج کے دن کے توسط سے بانی جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) جناب غلام دستگیراور جہاد فار زیرہ تھیلیسیمیا کے تمام رضاکاروں کی طرف سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس موذی مرض کو زرہ قریب سے دیکھا جائےاور اس کے خاتمے کے لئے فلفور اقدامات کیے جاہیں-

حکومت کی سپورٹ نہ ہونےکی وجہ سے تھیلیسیمیامریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس پر حکومت کو سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے پاس کوئی درست نمبر ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں کل کتنے  تھیلیسیمیا میجرکے مریض ہیں- اس حوالے سے جے زڈ ٹی کے دو مطالبات ہیں حکومت پاکستان سے، پہلا مطالبہ یہ ہے کہ تھیلیسیمیا سے متاثر تمام بچوں کی رجسٹریشن کی جائے تاکہ ہمارے سامنے ایک درست نمبر آسکے کہ تھیلیسیمیا مریضوں کا اعداد و شمار کتنا ہے-

ابھی تک جو بھی اسٹیٹکس ہمارے پاس ہیں وہ سب اندازہ کی بنیاد پر ہیں- جب تک ہمیں درست اسٹیٹکس کا علم نہیں ہو گا تب تک ہم کیسے پاکستان سے  تھیلیسیمیا کا خاتمہ کریں گے- جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) بطور رضاکار تنظیم اس مسلے کا حل تجویز کرنا چاہتی ہے، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی ورکرز جو کہ پولیو جیسی مہم کا حصہ ہیں ان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ جب بھی پولیو مہم کے لیے کسی شہر یا دیہات میں جائیں تو وہاں سے یہ ضرور معلوم کر لیں کہ یہاں کوئی بچہ ایسا تو نہیں جسے خون لگتا ہو-

اس سے با آسانی ہمیں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے کس شہر، ضلع اور تحصیل میں کتنے تھیلیسیمیا کے مریض ہیں- جب ہمیں یہ پتہ چل جائے گا تو پھر بڑی آسانی سے ہم ان کی فیملیز کو سکرین کر سکتے ہیں- اور آئندہ پیدہ ہونے والے  تھیلیسیمیا مریضوں کو روک سکتے ہیں، اور اسطرح ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کو تھیلیسیمیا فری بنا سکتے ہیں-

آج تھیلیسیمیا ڈے کے حوالے سے جو دوسرا اہم مطالبہ ہم حکومت پاکستان  بلخصوص جناب وزیراعظم عمران خان اور صدرپاکستان جناب ڈاکڑ عارف علوی سے کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) وہ واحد تنظیم ہے جس نے رضاکارانہ طور پر بغیر اپنے رضاکاروں کو کوئی معاوضہ دیے پورے پاکستان میں تھیلیسیمیا سے بچاؤ اور تھیلیسیمیا مریضوں کے لئے بیشتر خدمات انجام دی ہیں- جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) اب تک تقریبا پچاس ہزار سے زائد خون کے بیگز تھیلیسیمیا اور دیگر مریضوں کو عطیہ کر چکا ہے-

جے زڈ ٹی کے پروگرام ایچ ون ایز ون (Each one Ease one )کے تحت سات سو سے زائد تھیلیسیمیا مریضوں کی مالی معاونت کر رہا ہے- اس کہ ساتھ ساتھ فاٹا، ٹرائیبل ایریاز، نارتھ پاکستان میں اپنی ایمبولینس سروس بھی متعارف کرا چکا ہے، جو چند سالوں سے تھیلیسیمیا مریضوں کو خون کے عطیات کے لیے لے جانے اور لانے کے کی خدمات انجام دے رہی ہے- 

جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) کے علاوہ بھی پاکستان میں بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں- ان تمام رضاکارانہ تنظیموں کی طرف سے حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ ان رضاکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی کوئی اقدام ہونا چاہیے- اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ملکی ستہ پر ایک ایواڈ شو منعقد کرایا جائے جس میں تمام رضاکاروں کی خدمات کو سراہا جائے اور ان میں ایواڈز اور سرٹیفیکیٹس تقسیم کر کے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومت پاکستان اپنے ملک میں رضاکارانہ کام کرنے والوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے-

اس عمل سے نہ صرف رضاکاروں کی حصولہ افزائی ہو گی بلکہ دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اپنے ہیروز کو نہ صرف یاد رکھتی ہے بلکہ انکی پشت پنائی بھی کرتی ہے۔ اللہ وطن عزیز کو قائم و دائم رکھے اور اس مہلک بیماری سے جنگ میں ہماری مدد فرمائے-

Continue Reading

بلاگ

کرونا وائرس کا خوف

Published

on

کرونا وائرس

پاکستان کے اندر کرونا وائرس کے جو دو کیسیز سامنے آئی تھی ان پہ صرف شک کا اظہار کیا تھا لیکن تصدیق نہیں ہوئی تھی اور انھیں مکمل ٹیسٹ کے بعد کلیئر کردیا لیکن ساتھ ہی کرونا وائرس کی یہ خبر پورے ملک میں جنگل میں آگ سے بھی تیز پھیلا دی گئی اور سوشل میڈیا ہر کوئی بلا تصدیق پوسٹ کرنے لگے.

پورے ملک میں اس نئی وبا نے خوف، سنسنی اور دہشت پھیلا دی ہے۔ میں کسی دکان کے پاس کھڑا تھا اک تقریبا چھ سالہ بچہ آیا اور سہمے ہوئے لہجے میں کہا “ماسک ہے؟” اور بچے نے اپنے سویٹر سے منہ اور ناک چھپایا، پھر وہاں سے واپس چلا گیا۔

میں نے پوچھا کہاں جارہے ہو بیٹا؟

کہنے لگا بازار جانا تھا بس اب نہیں جاونگا مجھے ڈر لگ رہا ہے۔

ابھی ڈینگی اور پولیو سے ہماری جان نہیں چھوٹی تھی ہم شکست دینے میں صحیح کامیاب نہیں ہوئے تھے کہ یہ بلا بھی آگئی۔ دوسر جانب ہماری میڈیکل مافیا نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کیا ہے۔ مارکیٹ سے ماسک غائب ہوئے ہیں اور کہیں ملے بھی تو مہنگے داموں!

ہماری انتظامیہ بھی اس بات پہ چپ ہے ساتھ میں یہ بات بھی سننے میں آیا کہ نسوار والوں کو کرونا وائرس نہیں ہوتا مگر جہاں تک سنا ہے کرونا وائرس سگریٹ، نسوا اور منشیات استمال کرنے والوں کو جلد اپنی گرفت میں لیتا ہے ساتھ میں اک یہ جھوٹی خبر سنا کہ پیاز کے استمال سے بھی کرونا وائرس کا علاج ممکن ہے۔

ارے بھئ اگر ایسا ہوتا یہ وبا اتنا نہیں پھیلتا۔ یہ سب جھوٹ اور افواہ ہے۔ ہمارا ملک پہلے سے بہت مسائل کا شکار ہے خدارا ایسی باتیں نہ پھیلاو۔ بیشک کرونا وائرس ایک خطرناک بیماری ضرور ہے لیکن جھوٹی باتوں سے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا نہیں کرو۔

ماسک کا استمال سب کے لئے ضروری نہیں ڈاکٹر ٹیسٹ کے بعد اگر کہے تو ٹھیک ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایسی بیماریوں، پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچائے اور ہمارے ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

آمین۔

Continue Reading

مقبول تریں