Connect with us

کالم

ہز ہائینس پرنس کریم آغا خان کی سر زمین ہنزہ میں پہلی بار آمد کی سالگرہ

Published

on

ہز ہائینس پرنس کریم آغا خان کے سر زمین ہنزہ پہلی بار آمد کی سالگرہ منایا جا رہا ہے۔ 1960 سے پہلے پوری دنیا کے بیشتر ممالک سمیت ارض شمال میں غربت کی انتہا تھی۔ 1957 میں پرنس کریم آغا خان کے تخت نشینی کے بعد وسط ایشیا میں اداروں کا جال بچھانا شروع کیا۔ ان میں تعلیم اور صحت کو اولین ترجیح دی گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ ان اداروں کو وسعت دی گئی۔ اس سلسلے میں آغا خان فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جن کے ذیلی ادارواں میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کے لئے دن رات کام کیا گیا۔ جدید خطوط پر زرعی اجناس اور لائیو اسٹاک کی نئی نسل پر تحقیق کر کے موسم سے مطابقت رکھنے والے اقسام متعارف کرایا گیا جس سے پیداوار اور ان سے ہونے والی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زراعت کی طرف حالات کی مناسبت رجحان کم ہوا۔

فرسٹ مائیکرو فنانس بنک کا قیام ہز ہائینس پرنس کریم آغا خان کی دور اندیش معاشی حکمت عملی کے مرہون منت ہے جس نے نچلی سطح پر گھریلو صنعتوں کی جانب راغب کیا اور قرضوں کا اجراء کیا۔ اس طرح علاقے کی مجموعی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور لوگوں کا معیار زندگی میں بہتری آنے لگی۔ لوگوں میں اجتماعی سوچ کے ساتھ نئی ترقیاتی حکمت عملی کے تحت ہر گاوں کے سطح پر تنظیمات بنائے گئے جہاں ہر فیصلہ اجتماعی ہوتا تھا۔

لوگوں کو اس بات کے لئے معاشی ماہرین نے کاروبار کے طریقوں وسائل اور تکنیکی مدد فراہم کی۔ ارض شمال میں بسنے والی آبادی نہایت کٹھن موسمی اور جغرافیائی حالات کا سامنا کرتی ہے مگر یہاں کے عوام کا معیار زندگی پاکستان کے کسی بھی شہر سے کم نہیں ہے۔ مختلف اداروں کے انتھک محنت کے ثمرات ہیں کہ آج کے دور میں ترقی کی رفتار تسلی بخش ہے۔ امید ہے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور ترقی کا سفر جاری رہےگا۔

سیما کرن کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ سے ہے۔ وہ کراچی سے صحافت کی ڈگری کرنے کے ساتھ ساتھ روزنامہ وطین گلگت-بلتستان کے اخبار میں بطور بیورو چیف کراچی کام کرتی ہیں۔

Advertisement
Click to comment

سماجی مسائل

سیکولر گلگت بلتستان وقت کی ضرورت

Published

on

میثم قاسمی

سب سے پہلے میں سیکولر کی تعریف کرنا چاہونگا – سیکولر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے عقائد پے پابند رہنا ،دوسرے کے عقائد کے خلاف بات نہ کرنا اور ریاست کے معاملات سے مذہب کا کوئی تعلق نہ ہونا – سیکولر کا مطلب لا دین ہونا ہرگز نہیں –

ہمیں سیکولر گلگت بلتستان چائیے جہاں شیعہ سنی اسماعیلی اپنی مرضی سے اپنے عقائد پے عمل پیرا بھی ہوں اور وہ دوسرے مسالک پہ اپنے عقائد بھی مسلط نہ کر سکیں –

ہمیں سوچنا ہوگا ہمیں کیسے توڑا گیا پہلے مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی ، پھر شین ،یشکن کَمِن کے نام سے آپس میں لڑایا گیا -ہماری زمینوں پہ خالصہ سرکار کے نام پہ قبضے کیے گئے -پرائیویٹائزیشن کے نام پے ہمارا وسائل پے حملہ ہوا –

کیا ہمارے انفراسٹرکچر پے توجہ دی گئی ، ہیلتھ کیئر کا نظام بدلا ، کوئی آکسیجن پلانٹ گلگت بلتستان میں لگا، ڈاکٹروں کے لیے کوئی ٹیچنگ ہسپتال بنا ، کوئی انجینرنگ کالج تعمیر ہوا ، انٹرنیٹ کی فراہمی میں جدت آئی؟ ملازمت کے لیے کوئی نظام دیا گیا ہو ؟ سی ایس ایس کا کوٹا مزید کم کر دیا گیا – بجلی و پانی کا بحران ختم ہوا؟

کیا ہماری مذہبی قیادت نے ہماری 70 سالہ سیاسی و قانونی اور سماجی محرومیوں پے کبھی کوئی مل کر بات کی کوئی قرارداد شیعہ سنی اسماعیلی نے مل کر علاقے کی ترقی کے لیے دی ہو ؟ کوئی مناظرہ کسی ترقیاتی پروجیکٹ پے ہوا ہو ؟ کیا شیعہ سنی قیادت نے مل کر یوتھ کے لیے کوئی ملازمت کا پلان دیا ، بنیادی حقوق پے کبھی مل کہ بات کی گئی ؟

ہمیں طبقاتی نظام نے جکڑ لیا اور اشرافیہ ہم پے قابض بھی اسی لیے رہی کیونکہ ہم نے اجتمائی حقوق اور مسائل پے کبھی بیٹھ کر بات ہی نہیں کی نہ ہمیں بات کرنے کا موقع دیا گیا -سیاست میں بھی ہم نے مساجد کا استعمال کیا تبھی مسلکی اناد بڑھا –

جو جیسا ہے جس مسلک سے بھی ہو ہمیں اس کے عقیدہ سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہے – عقائد کو انفرادی حد تک ہی رکھنا دانش مندی اور وقت کی ضرورت ہے ورنہ ماضی کی طرح گلگت بلتستان خون میں رنگتا رہے گا اور اشرافیہ ہم پہ مسلط رہے گی۔

Continue Reading

بلاگ

گلگت چترال روڈ

Published

on

سنہ 2000ء میں بننے والے اس سڑک کی حالت اب قابلِ رحم ہے اور قابلِ غور بھی ہے کبھی کہتے ہیں یہ سڑک ملک پاکستان کے سب بڑے پراجیکٹ سی پیک میں شامل ہے تو کبھی کہتے ہیں یہ تاجکستان سے پاکستان آنے والے روڈ کا حصہ ہے کبھی تو اس کے ٹینڈر بھی ہونے کی خبر بھی پھیلتی ہے تو کبھی افتتاح کے فیتے بھی کاٹے جاتے ہیں مگر حقیقت کا پتا نہیں۔

2010ء میں آنے والے سیلاب نے اس سڑک کو مکمل طور پر متاثر کیا کئی دنوں بعد سڑک ٹریفک کے لئے بحال ہو گیا مگر کئی جگہوں میں کھڈے ایسے رہ گئے اور بچی کثر کو بعد میں آنے والے زلزلے نے پورا کیا جس کے بعد گاڑیوں کے لئے بحال کیا مگر مکمل مرمت نہیں ہوئی۔ اسی سڑک میں سینکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں سیلاب “لینڈ سلائیڈنگ” ہو ہی جاتی ہے جب وقت ہوتا ہے اور اس سڑک پہ اتنے زیادہ موڑ ہیں جیسے کسی بچے نے سفید کاغذ پہ پینسل سے ٹیڑھی لکیریں کھینچی ہو اس رستے سے دن میں سینکڑوں پیسنجر گاڑیاں گزرتی ہیں۔

ایمرجنسی مریضوں کو وقت پہ ہسپتال پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے “کانڇی موڑ” علاوہ بھی کئی جگہے ہیں جہاں مٹی کے تودے اور بڑے پتھر کسی وقت گاڑی کے چلنے سے زمین میں جو وائبریشن ہوتی ہے اس سے گرے تو کوئی حادثہ ہو سکتا ہے اور یہ وہی سڑک ہے جسے چترال روڈ کہا جاتا ہے دنیا کا بلند ترین پولوگراونڈ گراؤنڈ اور میلہ شندور کے لئے یہاں سے گزرنا ہوتا ہے نہایت خوبصورت پھنڈر ویلی بھی یہاں واقع ہے کارگل مارکہ میں نشان حیدر لینے والے گلگت بلتستان کا بہار بیٹا لالک جان کے مزار کے لئے بھی یہاں کے گزر کے جانا ہے۔

حالیہ دنوں ہونے والے سنو فیسٹیول ” خھلتی جھیل” جو کہ سردیوں میں اس جھیل پہ برف جم جاتا ہے اور اپنی خوبصورتی کی طرف مائل کرتی ہے مگر کوئی آئے تو کیسے اس سڑک کے خستہ حال کی وجہ سے ٹورسٹ کا رخ یہاں کی طرف کم ہے اگر یہ ہائی وے بن جاتا ہے تو کئی سیاحوں کا رخ اس طرف ہوگا اور مقامی لوگوں کی زندگیاں بھی آسان ہوں گی کسی نے کہا ہے علاقے کی ترقی میں اچھے سڑک کا کردار ہوتا ہے۔

ضلع غذر ابادی کے لہاظ سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور ضلع غذر کو شہیدوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ضلع غذر اک خوبصورت ضلع یہاں سیاح آتے تو ہیں مگر کم اس کی وجہ یہی سڑک اک مہینہ پہلے بھی افتتاح کیا مگر اب تک کوئی پتا نہیں۔

Continue Reading

سماجی مسائل

ہم نے اپنے گھروں کو ڈوبتے دیکھا

Published

on

لینڈ سلائڈنگ کا مخصوص وقت ہوتا ہے جو کہ اپریل سے ستمبر کے پہلے ہفتے تک رہتا ہے جس میں آسمانی بجلی کی گرج چمک اور تیز بارش کے باعث پہاڑوں پہ گری آسمانی بجلی اپنے سامنے آنے والی ہر چیز درخت پتھر مٹی کھیت گھر جانور انسان کو اپنے ساتھ ملا کے انتہائی خوفناک شکل میں دریا تک پہنچتی ہے۔ اس کی وجہ سے دور تک زلزلے کی جیسی ڈراؤنی آواز آتی ہیں اور سننے والا ہر شخص کانپے لگتا ہے۔

2 ستمبر کی شام ہمارے محلے میں اندزہ ہونے لگا کہ سیلاب کا خطرہ ہے کیونکہ پچھلے 48 گھنٹوں سے بارش بلکل رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سب لوگ خوف اور پریشانی میں تھے۔بارش تیز سے تیز ہو رہی تھی۔ میں گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پیٹرول پمپ کے ساتھ جو کہ پہاڑ سے آنے والا بارش کے پانی کا راستہ ہے وہاں بار بار جا کر معائنہ کرتا رہا۔ رات کے تقریبا ساڑھے بارہ بجے مجھے اندازہ ہوگیا کہ پانی کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے۔محلے کے تقریبا سارے ہی لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔

دو دوستوں کے علاوہ میرا کسی کے ساتھ رابطہ نہ ہو سکا پھر میں گھر میں اپنے کمرے میں لیٹا گھر کی چھت پہ بارش کے تیز رفتار قطروں نے سونے نہ دیا۔ کچھ ٹائم بعد میں موبائل میں نے ٹائم دیکھا تو رات کے 03:13 بجھ گئے تھے۔ موبائل سرہانے کے ساتھ رکھا ہی تھا کہ کال آئی۔ کال اٹھایا تو ایک دوست نے کہا لہ جلدی سے اپنے گھر والوں کع باہر نکالو سلائڈنگ ہورہی ہے اور سیلاب کا رخ ہمارے محلے کی جانب ہے۔

اس وقت کا خوف اور ڈر شاید ہی بیان نہیں کرسکوں۔ جلدی سے اٹھا، سارے گھر والوں کو جگایا اور بڑی مشکل سے صرف ایک دوست کو کال لگی جسے میں نے خبردار کیا۔ تھوڑی دیر بعد نیٹ ورک نے بھی جواب دے دیا اور کسی کو کال نہ کر سکا۔ میں گھر والوں کو باہر نکالنے دروازے پر نکلا تو دیکھا کہ سیلابی پانی دروازے تک پہنچ چکا ہے۔

گھر والوں بمشکل باہر نکالنے لگا اور دادی اماں جن کی عمر تقریباً 120 برس ہے انھیں لینے آندھرے میں گھر دوبارہ داخل ہوا تو محلے کے ہر طرف سے چیخ پکار کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔

باہر کافی لوگ ننگے پاوں تھے اور زیادہ تر لوگ نیند کی حالت میں تھے۔ سردی بھی تھی اور بارش تیز سے تیز ہو رہی تھی جبکہ سیلابی پانی اور لوگوں کی آوازیں دور تک گھونج رہی تھیں۔ یہ ایسا قیامت خیز منظر تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گھر والوں کو محلے سے باہر محفوظ مقام پر نکالنے کے بعد کچھ اہم اشیاء لینے جب دوبارہ گھر کی طرف جانا چاہا تو دیکھا کہ سارا محلہ پانی میں ڈوب چکا ہے اور کسی صورت گھر پہنچنا ممکن نہیں۔ کچھ وقت انتظار کے بعد آخر بڑی مشکلوں سے اپنے چھوٹے بھائی اور کچھ دوست سمیت ایک دوسروں کے ہاتھ پکڑھ کر گرتے ڈوبتے ہوئے گھر تک پہنچے۔ گھر کے سارے کمروں میں پانی بھر چکا تھا۔ ایک کھڑکی کی جالی پھاڑ کر اندر داخل ہوئے اور اپنے ضروری دستاویزات، کاغذات اور نقدی رقم نکالنے میں کامیان ہوئے۔ واپسی پر دیکھا کہ پانی کا بہاؤ اور زیادہ ہو رہا ہے اور ساتھ ہی بارش بھی تیز ہو چکی تھی۔ رستے میں ایک اور دوست سے بات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے گھر کی دیواریں گر چکی ہیں اور ہم بمشکل اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلے ہیں۔

صبح ہوئی تو پتا چلا محلے کے 64 گھرانے سیلاب کی زد میں میں آچکے ہیں۔ محلے کے کم و بیش سارے رہائشی بےگھر ہوچکے تھے۔ بعض نے اپنے دوست رشتہ داروں کے گھر اور بعض نے ہوٹلوں میں 3 دن گزارے اور حالات جب بہتر ہوئے تو اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ محلے کی کوئی گلی سڑک مکان سلامت نہیں رہا تھا۔ حکومت کی طرف سے کوئی امدادی کاروائی نہ ہونے کے بعد محلے والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مرمت کا کام شروع کیا اور تاحال جاری ہے۔

Continue Reading

مقبول تریں