بلاگ
سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ اور گلگت بلتستان
گلگت بلتستان کی قوم جب تک اپنی منافقت سے باہر نہیں آتی تب تک اس کو حقیقی آزادی نہیں مل سکتی۔ سب کو پتہ ہے کہ گلگت بلتستان کے قوم پرست جو کہتے تھے وہ صحیح کہتے تھے۔ گلگت بلتستان کے عوام چاہے یا نہ چاہے، گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کے موقف کی ہر وقت جیت ہوتی رہی ہے۔ اگر یہ لوگ کالی، لال، ہری، نیلی اور پیلی جھنڈیوں کی چھاوں سے نکل کر اصل دھوپ کا مقابلہ نہیں کرتے، تب تک ان کو اپنی منزل کا تعین کرنا بھی ممکن نہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے آنے سے پہلے ہی قوم پرستوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالے جانے کی خبر گردش کررہی ہے۔ یہ شاید اس لئے ہے کہ اِن کو مثال بنایا جائے تاکہ جو لوگ ابھی متنفر ہونے والے ہیں ان کے سامنے قوم پرستوں کو مثال بنا دیا جائے۔ خیر قوم پرست ابھی کچھ نہی کرینگے۔ دیکھتے ہیں کہ قوم کے بیماروں کی درد کی دوا کیسے ہوتی ہے۔ قوم پرست اب ایندھن نہیں بنیں گے۔ اب گلگت بلتستان کی پوری قوم کو خود ہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف کھڑے ہیں۔ عوامی رہنمائی کا واحد زریعہ قوم پرستوں کا بتایا ہوا راستہ ہے۔ ہزار اختلاف ہو مگر یہ بات اب ماننا پڑیگا کہ گلگت بلتستان کی رہنمائی اور اس آئینی بحران سے نکلنے کے لئے مقامی سطح پر آواز اُٹھانے کی کوششیں اب کارگر ثابت نہیں ہونگی۔
اب اگر کوئی تحریک اُبھرتی ہے تو دنیا کے آخری حصے تک اس کی گونج سنائی دینی چاہئے۔ اس بات کو پس پشت ڈالنے کی ضرورت ہے کہ کس پارٹی نے کس کے کہنے پہ کیا کچھ کیا۔ سب کو عملی طور پر کسی ایک لیڈر کا انتخاب کرکے کسی ایک نعرے کے ساتھ اپنے مسائل کے حل کے لئے آواز بلند کرنا چاہئے کہونکہ یہ راستہ ہی قومی کامیابی کا ضامن ہے۔
اب پھر سے کسی مخمصے پہ جائے بغیر یہ سوچنا پڑیگا کہ کس کے موقف کی کتنی اہمیت ہے۔ گلگت بلتستان کے حالات، وزیرستان، افغانستان، فلسطین، یمن، مصر سے زیادہ خراب تو نہیں بلکہ ان سے کئی درجہ بہتر ہیں کہ یہاں کے باسی اس قرب میں مبتلا ہوجائے کہ گندم بند ہوگیا تو کیا ہوگا، سامان بند ہوگیا تو کیا ہوگا؟ دنیا کی نظر ہے اس خطے پر اس لئے پاکستان کا واحد ہتھیار سی پیک ہے جس کو ٹیبل پہ رکھ کے ایران سے لیکر سعودی عرب اور قطر تک ممالک کو اس میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔
اس لئے اپنے آپ کو کبھی کسی سے کم نہیں سمجھنا چاہئے۔ گلگت بلتستان کی ابھی ابھرنے والی تحریکوں کو عالمی شہرت مل جائے گی۔ اور ہاں سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیگا۔ سب خوابوں کو حقیقت میں دھارنے کے لئے محنت، لگن، مثبت سوچ، اور قربانی کی ضرورت ہوگی۔ اور یہ بھی مت سمجھنا کہ کوئی ایندھن بن کے آپ کو پلیٹ میں رکھ کے یہ سب مہیا کریگا۔
اگر بازووں میں دم ہے اور مفاد پرستی کم ہے تو پھر تم خود ہی خود کے خوابوں کی تکمیل کرسکتے ہو۔
بلاگ
گلگت چترال روڈ
سنہ 2000ء میں بننے والے اس سڑک کی حالت اب قابلِ رحم ہے اور قابلِ غور بھی ہے کبھی کہتے ہیں یہ سڑک ملک پاکستان کے سب بڑے پراجیکٹ سی پیک میں شامل ہے تو کبھی کہتے ہیں یہ تاجکستان سے پاکستان آنے والے روڈ کا حصہ ہے کبھی تو اس کے ٹینڈر بھی ہونے کی خبر بھی پھیلتی ہے تو کبھی افتتاح کے فیتے بھی کاٹے جاتے ہیں مگر حقیقت کا پتا نہیں۔
2010ء میں آنے والے سیلاب نے اس سڑک کو مکمل طور پر متاثر کیا کئی دنوں بعد سڑک ٹریفک کے لئے بحال ہو گیا مگر کئی جگہوں میں کھڈے ایسے رہ گئے اور بچی کثر کو بعد میں آنے والے زلزلے نے پورا کیا جس کے بعد گاڑیوں کے لئے بحال کیا مگر مکمل مرمت نہیں ہوئی۔ اسی سڑک میں سینکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں سیلاب "لینڈ سلائیڈنگ” ہو ہی جاتی ہے جب وقت ہوتا ہے اور اس سڑک پہ اتنے زیادہ موڑ ہیں جیسے کسی بچے نے سفید کاغذ پہ پینسل سے ٹیڑھی لکیریں کھینچی ہو اس رستے سے دن میں سینکڑوں پیسنجر گاڑیاں گزرتی ہیں۔
ایمرجنسی مریضوں کو وقت پہ ہسپتال پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے "کانڇی موڑ” علاوہ بھی کئی جگہے ہیں جہاں مٹی کے تودے اور بڑے پتھر کسی وقت گاڑی کے چلنے سے زمین میں جو وائبریشن ہوتی ہے اس سے گرے تو کوئی حادثہ ہو سکتا ہے اور یہ وہی سڑک ہے جسے چترال روڈ کہا جاتا ہے دنیا کا بلند ترین پولوگراونڈ گراؤنڈ اور میلہ شندور کے لئے یہاں سے گزرنا ہوتا ہے نہایت خوبصورت پھنڈر ویلی بھی یہاں واقع ہے کارگل مارکہ میں نشان حیدر لینے والے گلگت بلتستان کا بہار بیٹا لالک جان کے مزار کے لئے بھی یہاں کے گزر کے جانا ہے۔
حالیہ دنوں ہونے والے سنو فیسٹیول ” خھلتی جھیل” جو کہ سردیوں میں اس جھیل پہ برف جم جاتا ہے اور اپنی خوبصورتی کی طرف مائل کرتی ہے مگر کوئی آئے تو کیسے اس سڑک کے خستہ حال کی وجہ سے ٹورسٹ کا رخ یہاں کی طرف کم ہے اگر یہ ہائی وے بن جاتا ہے تو کئی سیاحوں کا رخ اس طرف ہوگا اور مقامی لوگوں کی زندگیاں بھی آسان ہوں گی کسی نے کہا ہے علاقے کی ترقی میں اچھے سڑک کا کردار ہوتا ہے۔
ضلع غذر ابادی کے لہاظ سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور ضلع غذر کو شہیدوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ضلع غذر اک خوبصورت ضلع یہاں سیاح آتے تو ہیں مگر کم اس کی وجہ یہی سڑک اک مہینہ پہلے بھی افتتاح کیا مگر اب تک کوئی پتا نہیں۔
بلاگ
ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے اور جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) کی کاوشیں
آج ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے ہے اور آج کے دن کو تھیلیسیمیا کی آگاہی کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) پچھلے دس سالوں سے اس دن کے حوالے سے پورے پاکستان میں تھیلیسیمیا کی آگاہی کے لئے تقریبات کرتی رہی ہے- اس سال چونکہ لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں-
اور ان حالات میں تقریبات کو عمل میں نہیں لایا جا سکتا- تو اس سال ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے پرہم چاہتے ہیں کہ میڈیا چینلز اور اخبارات کے زریعے لوگوں تک تھیلیسیمیا آگاہی کا پیغام پہنچایا جائے۔ آج کے دن کے توسط سے بانی جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) جناب غلام دستگیراور جہاد فار زیرہ تھیلیسیمیا کے تمام رضاکاروں کی طرف سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس موذی مرض کو زرہ قریب سے دیکھا جائےاور اس کے خاتمے کے لئے فلفور اقدامات کیے جاہیں-
حکومت کی سپورٹ نہ ہونےکی وجہ سے تھیلیسیمیامریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس پر حکومت کو سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے پاس کوئی درست نمبر ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں کل کتنے تھیلیسیمیا میجرکے مریض ہیں- اس حوالے سے جے زڈ ٹی کے دو مطالبات ہیں حکومت پاکستان سے، پہلا مطالبہ یہ ہے کہ تھیلیسیمیا سے متاثر تمام بچوں کی رجسٹریشن کی جائے تاکہ ہمارے سامنے ایک درست نمبر آسکے کہ تھیلیسیمیا مریضوں کا اعداد و شمار کتنا ہے-
ابھی تک جو بھی اسٹیٹکس ہمارے پاس ہیں وہ سب اندازہ کی بنیاد پر ہیں- جب تک ہمیں درست اسٹیٹکس کا علم نہیں ہو گا تب تک ہم کیسے پاکستان سے تھیلیسیمیا کا خاتمہ کریں گے- جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) بطور رضاکار تنظیم اس مسلے کا حل تجویز کرنا چاہتی ہے، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی ورکرز جو کہ پولیو جیسی مہم کا حصہ ہیں ان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ جب بھی پولیو مہم کے لیے کسی شہر یا دیہات میں جائیں تو وہاں سے یہ ضرور معلوم کر لیں کہ یہاں کوئی بچہ ایسا تو نہیں جسے خون لگتا ہو-
اس سے با آسانی ہمیں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے کس شہر، ضلع اور تحصیل میں کتنے تھیلیسیمیا کے مریض ہیں- جب ہمیں یہ پتہ چل جائے گا تو پھر بڑی آسانی سے ہم ان کی فیملیز کو سکرین کر سکتے ہیں- اور آئندہ پیدہ ہونے والے تھیلیسیمیا مریضوں کو روک سکتے ہیں، اور اسطرح ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کو تھیلیسیمیا فری بنا سکتے ہیں-
آج تھیلیسیمیا ڈے کے حوالے سے جو دوسرا اہم مطالبہ ہم حکومت پاکستان بلخصوص جناب وزیراعظم عمران خان اور صدرپاکستان جناب ڈاکڑ عارف علوی سے کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) وہ واحد تنظیم ہے جس نے رضاکارانہ طور پر بغیر اپنے رضاکاروں کو کوئی معاوضہ دیے پورے پاکستان میں تھیلیسیمیا سے بچاؤ اور تھیلیسیمیا مریضوں کے لئے بیشتر خدمات انجام دی ہیں- جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) اب تک تقریبا پچاس ہزار سے زائد خون کے بیگز تھیلیسیمیا اور دیگر مریضوں کو عطیہ کر چکا ہے-
جے زڈ ٹی کے پروگرام ایچ ون ایز ون (Each one Ease one )کے تحت سات سو سے زائد تھیلیسیمیا مریضوں کی مالی معاونت کر رہا ہے- اس کہ ساتھ ساتھ فاٹا، ٹرائیبل ایریاز، نارتھ پاکستان میں اپنی ایمبولینس سروس بھی متعارف کرا چکا ہے، جو چند سالوں سے تھیلیسیمیا مریضوں کو خون کے عطیات کے لیے لے جانے اور لانے کے کی خدمات انجام دے رہی ہے-
جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) کے علاوہ بھی پاکستان میں بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں- ان تمام رضاکارانہ تنظیموں کی طرف سے حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ ان رضاکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی کوئی اقدام ہونا چاہیے- اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ملکی ستہ پر ایک ایواڈ شو منعقد کرایا جائے جس میں تمام رضاکاروں کی خدمات کو سراہا جائے اور ان میں ایواڈز اور سرٹیفیکیٹس تقسیم کر کے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومت پاکستان اپنے ملک میں رضاکارانہ کام کرنے والوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے-
اس عمل سے نہ صرف رضاکاروں کی حصولہ افزائی ہو گی بلکہ دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اپنے ہیروز کو نہ صرف یاد رکھتی ہے بلکہ انکی پشت پنائی بھی کرتی ہے۔ اللہ وطن عزیز کو قائم و دائم رکھے اور اس مہلک بیماری سے جنگ میں ہماری مدد فرمائے-
بلاگ
کرونا وائرس کا خوف
پاکستان کے اندر کرونا وائرس کے جو دو کیسیز سامنے آئی تھی ان پہ صرف شک کا اظہار کیا تھا لیکن تصدیق نہیں ہوئی تھی اور انھیں مکمل ٹیسٹ کے بعد کلیئر کردیا لیکن ساتھ ہی کرونا وائرس کی یہ خبر پورے ملک میں جنگل میں آگ سے بھی تیز پھیلا دی گئی اور سوشل میڈیا ہر کوئی بلا تصدیق پوسٹ کرنے لگے.
پورے ملک میں اس نئی وبا نے خوف، سنسنی اور دہشت پھیلا دی ہے۔ میں کسی دکان کے پاس کھڑا تھا اک تقریبا چھ سالہ بچہ آیا اور سہمے ہوئے لہجے میں کہا "ماسک ہے؟” اور بچے نے اپنے سویٹر سے منہ اور ناک چھپایا، پھر وہاں سے واپس چلا گیا۔
میں نے پوچھا کہاں جارہے ہو بیٹا؟
کہنے لگا بازار جانا تھا بس اب نہیں جاونگا مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
ابھی ڈینگی اور پولیو سے ہماری جان نہیں چھوٹی تھی ہم شکست دینے میں صحیح کامیاب نہیں ہوئے تھے کہ یہ بلا بھی آگئی۔ دوسر جانب ہماری میڈیکل مافیا نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کیا ہے۔ مارکیٹ سے ماسک غائب ہوئے ہیں اور کہیں ملے بھی تو مہنگے داموں!
ہماری انتظامیہ بھی اس بات پہ چپ ہے ساتھ میں یہ بات بھی سننے میں آیا کہ نسوار والوں کو کرونا وائرس نہیں ہوتا مگر جہاں تک سنا ہے کرونا وائرس سگریٹ، نسوا اور منشیات استمال کرنے والوں کو جلد اپنی گرفت میں لیتا ہے ساتھ میں اک یہ جھوٹی خبر سنا کہ پیاز کے استمال سے بھی کرونا وائرس کا علاج ممکن ہے۔
ارے بھئ اگر ایسا ہوتا یہ وبا اتنا نہیں پھیلتا۔ یہ سب جھوٹ اور افواہ ہے۔ ہمارا ملک پہلے سے بہت مسائل کا شکار ہے خدارا ایسی باتیں نہ پھیلاو۔ بیشک کرونا وائرس ایک خطرناک بیماری ضرور ہے لیکن جھوٹی باتوں سے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا نہیں کرو۔
ماسک کا استمال سب کے لئے ضروری نہیں ڈاکٹر ٹیسٹ کے بعد اگر کہے تو ٹھیک ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایسی بیماریوں، پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچائے اور ہمارے ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
آمین۔
-
خبریں6 سال ago
گلگت بلتستان کے مشہور موسیقار امتیاز کريم ہنزہ میں انتقال کر گئے
-
ثقافت6 سال ago
ہنزہ آرٹس اینڈ کلچرل کونسل اور ڈائمنڈ پینٹ کے اشتراک سے ہنزہ میں عید فیملی میگا شو کا انعقاد
-
ضلع8 سال ago
گوجال میں گلمت فٹبال پریمیر لیگ شروع
-
ثقافت8 سال ago
ضلع نگرچھلت میں گنانی فیسٹول تیس سال بعد روایتی جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا