Noshad Sheraz - Gilgit-Baltistan writer

میں دخترِ گلگت ہوں سنو میری صدا کو

کیوں خاک ہی سمجھا ہے تو نے اپنی بقاء کو

 

میں علم کی جس نور میں ڈھل ڈھل کے پلی ہوں

اس نورِ محمد کی میں امت کی صلہ ہوں

 

آج میری ہی دھرتی میں عجب قہر ہے برپا

ایسا بھی نہیں میں نے کہ اوروں سے سنا ہے

 

قانون کے دیوتاؤں نے کیا حشر کیا ہے؟؟؟

ہر فرد کو ہر مرد کو اب خوب گلہ ہے

 

وادی بھی تیرے کو ہ بھی سب مال تیرے ہیں

یہ جھیل یہ پربت یہ شجر آب تیرے ہیں

 

بس میں ہی نہیں تیرے اس آنگن کا ستارہ

جس دھرتی پہ تو راج ہی کرتا چلا آیا

 

منظور ہے مجھ کو تیرے قانون کی لکھّت

پر غور ذرا تو میری باتوں کو کرو اب

 

غازی میر ے شہداء میرے این ایل آئی کے سپاہی

دے دے کے لہو پھر بھی یہ بے نام ہیں راہی

 

کارگل ہو سیاچن ہو کہ وانا ہو وزیرستان

کس نام سے،پہچان سے قربان کریں جان؟

 

سی پیک یہ نئے ایکٹ یہ کھوٹے تیرے کوٹے

لالچ میں ہی آ کر تیرے بندوں نے ہیں لوٹے

 

متنازعہ میرا ضرف نہیں، نہ ہی انّا ہے

احساس وفا ہی میری غیرت ہے صفت ہے

 

آزادی جو لی تھی میرے اجداد نے ڈٹ کر

اس پل کی صدا قت سے تو اب وقت بدل دے

 

گمنام نہ جینا، نہ یو ں مر نا کبھی بے مول

تم مثل ہو غیرت کے اور ہو بہت انمول

 

نوشی نے عبث دیر سے کی آہ لبِ قلبی

دے قوم کو یہ میری صدا خوب تجلّی

By نوشاد شیراز نوشی

نوشاد شیراز نوشی کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع گلگت سے ہے۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کرنے کے بعد پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرتی ہیں۔ وہ ادب و شاعری کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی لکھتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے