Noshad Sheraz - Gilgit-Baltistan writer

اٹھو اہلِ شمال بیدار ہو جا!!!
لہو میں آگ جیسا چاہیے کچھ
صدا اس دیس کے سب مردو زن کو
راہِ انقلاب جیسا چاہیے کچھ
نگاہ ِ مرد ِمومن کون ہیں وہ؟
علی کے لال جیسا چاہیے کچھ
میرے اس دیس میں لڑ لڑ کے تنہا
وہ لالک جان جیسا چاہیے کچھ
میری دھرتی کے سب غیّور انسان
بقاء میں سانس جیسا چاہیے کچھ
میری گلگت سے نفرت کو مٹا دے
گل و گلزار جیسا چاہیے کچھ
بتا اس نسل کو کس کےثمر تھے؟
حسن،شاہ خان جیسا چاہیے کچھ
تڑپ ہو عشق ہو چاہت وطن سے
قلم میں جان جیسا چاہیے کچھ
نہ شکوہ کر لوں میں ان لیڈروں سے
نیازی خان جیسا چاہیے کچھ
کہ جس میں تڑ ہو ہمت حوصلہ ہو
سپاہ این ایل آئ جیسا چاہیۓ کچھ
عبث ہو دین کے فرقوں میں بٹکے
سدا یکجان جیسا چاہیے کچھ
جوانو! اُٹھ کےکشتی کو سنبھالو
قائد،اقبال جیسا چاہیے کچھ
وطن سے عشق کرنا فرضِ لازم
میری پہچان جیسا چاہیے کچھ
میں نوشی قدر کی حقدار سی ہوں
مجھے نایاب جیسا چاہیے کچھ

By نوشاد شیراز نوشی

نوشاد شیراز نوشی کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع گلگت سے ہے۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کرنے کے بعد پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرتی ہیں۔ وہ ادب و شاعری کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی لکھتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے