سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ اور گلگت بلتستان

Hussain Ali Shah - Blogger from Gilgit-Baltistana and Chitral

گلگت بلتستان کی قوم جب تک اپنی منافقت سے باہر نہیں آتی تب تک اس کو حقیقی آزادی نہیں مل سکتی۔ سب کو پتہ ہے کہ گلگت بلتستان کے قوم پرست جو کہتے تھے وہ صحیح کہتے تھے۔ گلگت بلتستان کے عوام چاہے یا نہ چاہے، گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کے موقف کی ہر وقت جیت ہوتی رہی ہے۔ اگر یہ لوگ کالی، لال، ہری، نیلی اور پیلی جھنڈیوں کی چھاوں سے نکل کر اصل دھوپ کا مقابلہ نہیں کرتے، تب تک ان کو اپنی منزل کا تعین کرنا بھی ممکن نہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے آنے سے پہلے ہی قوم پرستوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالے جانے کی خبر گردش کررہی ہے۔ یہ شاید اس لئے ہے کہ اِن کو مثال بنایا جائے تاکہ جو لوگ ابھی متنفر ہونے والے ہیں ان کے سامنے قوم پرستوں کو مثال بنا دیا جائے۔ خیر قوم پرست ابھی کچھ نہی کرینگے۔ دیکھتے ہیں کہ قوم کے بیماروں کی درد کی دوا کیسے ہوتی ہے۔ قوم پرست اب ایندھن نہیں بنیں گے۔ اب گلگت بلتستان کی پوری قوم کو خود ہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف کھڑے ہیں۔ عوامی رہنمائی کا واحد زریعہ قوم پرستوں کا بتایا ہوا راستہ ہے۔ ہزار اختلاف ہو مگر یہ بات اب ماننا پڑیگا کہ گلگت بلتستان کی رہنمائی اور اس آئینی بحران سے نکلنے کے لئے مقامی سطح پر آواز اُٹھانے کی کوششیں اب کارگر ثابت نہیں ہونگی۔

اب اگر کوئی تحریک اُبھرتی ہے تو دنیا کے آخری حصے تک اس کی گونج سنائی دینی چاہئے۔ اس بات کو پس پشت ڈالنے کی ضرورت ہے کہ کس پارٹی نے کس کے کہنے پہ کیا کچھ کیا۔ سب کو عملی طور پر کسی ایک لیڈر کا انتخاب کرکے کسی ایک نعرے کے ساتھ اپنے مسائل کے حل کے لئے آواز بلند کرنا چاہئے کہونکہ یہ راستہ ہی قومی کامیابی کا ضامن ہے۔

اب پھر سے کسی مخمصے پہ جائے بغیر یہ سوچنا پڑیگا کہ کس کے موقف کی کتنی اہمیت ہے۔ گلگت بلتستان کے حالات، وزیرستان، افغانستان، فلسطین، یمن، مصر سے زیادہ خراب تو نہیں بلکہ ان سے کئی درجہ بہتر ہیں کہ یہاں کے باسی اس قرب میں مبتلا ہوجائے کہ گندم بند ہوگیا تو کیا ہوگا، سامان بند ہوگیا تو کیا ہوگا؟ دنیا کی نظر ہے اس خطے پر اس لئے پاکستان کا واحد ہتھیار سی پیک ہے جس کو ٹیبل پہ رکھ کے ایران سے لیکر سعودی عرب اور قطر تک ممالک کو اس میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔

اس لئے اپنے آپ کو کبھی کسی سے کم نہیں سمجھنا چاہئے۔ گلگت بلتستان کی ابھی ابھرنے والی تحریکوں کو عالمی شہرت مل جائے گی۔ اور ہاں سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیگا۔ سب خوابوں کو حقیقت میں دھارنے کے لئے محنت، لگن، مثبت سوچ، اور قربانی کی ضرورت ہوگی۔ اور یہ بھی مت سمجھنا کہ کوئی ایندھن بن کے آپ کو پلیٹ میں رکھ کے یہ سب مہیا کریگا۔

اگر بازووں میں دم ہے اور مفاد پرستی کم ہے تو پھر تم خود ہی خود کے خوابوں کی تکمیل کرسکتے ہو۔

By حسین علی شاہ

حسین علی شاہ کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے ہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک نجی بینک میں کام کرتے ہیں۔ انھیں سوشل میڈیا پر بلاگ لکھنے کا شوق ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے