پاکستان میں عمومی طور پر، اور گلگت بلتستان جیسے خطوں میں خصوصی طور پر، خواتین کی سیاسی فیصلہ سازی میں شرکت اور نمائندگی نہایت کم ہے یا بعض اوقات مکمل طور پر غیر موجود ہوتی ہے۔ یہ کمی محض ثقافتی بندشوں کی مرہونِ منت نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی ساختی، قانونی، سماجی اور معاشی عوامل کارفرما ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں میں انتخابی اور سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت اور صنفی مساوات کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں، ان میں سب سے نمایاں ادارہ جاتی تعصب، قانونی خامیاں، سیاسی جماعتوں کا رویہ، اور وسائل تک عدم رسائی جیسے مسائل ہیں۔
انتخابی سیاست میں مالیاتی نظام خواتین کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ مہم کے اخراجات، فیسیں اور دیگر مالی تقاضے اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین تو کیا، مرد امیدوار بھی انتخابات میں حصہ لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ جائیداد اور مالی وسائل پر مردوں کی اجارہ داری کے باعث خواتین کی معاشی خودمختاری محدود ہو جاتی ہے، جو بالآخر ان کی سیاسی خودمختاری پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ثقافتی اور سماجی سطح پر موجود گہرے صنفی تعصبات بھی خواتین کی سیاسی شمولیت کے خلاف ماحول پیدا کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے، جنہیں صرف سیاسی نہیں بلکہ صنفی تعصب پر مبنی نفرت انگیز مہمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’اگر اختلاف سیاسی ہوتا تو میں مقابلہ کر سکتی تھی، مگر یہ لوگ عورت سے نفرت کرتے ہیں اور مذہب کو بنیاد بنا کر میری قیادت کے خلاف بیانات دیتے ہیں‘‘ آج بھی بہت سی خواتین رہنماؤں کے تجربے کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ تعصبات ایک ایسی دیوار کی مانند ہیں جو آج بھی خواتین کی سیاسی پیش رفت کے راستے میں حائل ہے۔
گلگت بلتستان جیسے خطوں میں خواتین کی سیاسی شمولیت کو فروغ دینے کا ایک مؤثر ذریعہ مقامی حکومتوں کا نظام ہو سکتا ہے۔ مقامی سطح پر انتخابی حلقے محدود ہوتے ہیں اور انتخابی مہم کی لاگت بھی نسبتاً کم ہوتی ہے، جس سے خواتین کو بہتر مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے مقامی حکومتوں کے انتخابات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس سے خواتین کی شمولیت کے دروازے مزید بند ہو گئے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا کردار بھی مایوس کن ہے۔ خواتین کو پارٹی ٹکٹ دینے سے اجتناب کیا جاتا ہے، اور اگر ٹکٹ دیا بھی جائے تو انہیں ایسے حلقوں میں کھڑا کیا جاتا ہے جہاں جماعت کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں متعدد خواتین نے آزاد حیثیت میں نمایاں کامیابی حاصل کی، لیکن یہ جماعتی عمل کا حصہ نہیں بلکہ انفرادی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین بھی اکثر جماعتی حمایت سے محروم رہتی ہیں، اور انہیں تنظیمی سردمہری، فنڈز کی کمی اور امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، گلگت بلتستان کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام نے ایک خاتون کو ہنزہ جیسے مشکل حلقے سے ٹکٹ دیا، جہاں پارٹی کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر تھا۔ اسی طرح آمنہ انصاری جیسی خواتین نے بھرپور انداز میں مہم چلا کر تین ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے، جو خواتین کی سیاسی استعداد اور عوامی قبولیت کا واضح اظہار ہے۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں اگرچہ خواتین کی نمائندگی کا اہم ذریعہ ہیں، لیکن ان نشستوں پر مسلسل ایک ہی چہروں کو لانا سیاسی کارکن خواتین کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے آئین اور ضوابط میں یہ اصول شامل کرنا چاہیے کہ مخصوص نشستوں پر ورکنگ کلاس، کمیونٹی بیسڈ اور سیاسی سرگرم خواتین کو ترجیح دی جائے۔ اگر ان نشستوں کو متعلقہ ڈویژن کی سطح پر مختص کیا جائے تو نمائندگی مزید مؤثر اور حقیقی بن سکتی ہے۔
خواتین کی سیاسی شمولیت کو مؤثر بنانے کے لیے انتخابی کمیشن، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو مشترکہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی ضروری ہے جو خواتین کے خلاف نفرت انگیز مہمات چلاتے ہیں یا انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ عوامی آگاہی مہمات، میڈیا کا مثبت کردار، اور قانون سازی کے ذریعے اس تعصب پر مبنی بیانیے کو چیلنج کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
سب سے بنیادی نکتہ خواتین کا اپنا عزم، سیاسی شعور اور خود اعتمادی ہے۔ خواتین کو سماجی دباؤ اور صنفی توقعات کو چیلنج کرتے ہوئے سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا۔ گلیوں، بازاروں، ووٹرز کی دہلیز اور عوامی مجالس میں اپنی موجودگی اور آواز کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ایک مؤثر سیاسی بیانیہ، واضح ایجنڈا، اور عوامی رابطہ ہی انہیں وہ ووٹ بینک مہیا کر سکتا ہے جو پائیدار نمائندگی کا راستہ ہموار کرے گا۔
خواتین کی سیاسی شرکت کسی رعایت کی مرہون منت نہیں بلکہ ان کا آئینی، جمہوری اور اخلاقی حق ہے۔ اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ازالہ صرف خواتین کی انفرادی جدوجہد سے ممکن نہیں، بلکہ یہ ایک جامع، ریاستی اور سماجی عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف نمائندگی کی تعداد نہیں بلکہ نمائندگی کے معیار پر بھی بات کریں — تاکہ جمہوریت واقعی سب کی ہو، اور ہر آواز سنی جائے.
جواب دیں