پہاڑ سے اترتے کیوں نہیں؟

یاور عباس

"پہاڑ سے اتر کر گاؤں جاؤں گا تو پولیس رات کے کسی بھی وقت گھر پر چھاپہ مارے گی۔ گھر والوں کو پریشان، اہلِ محلہ کو ہراساں کرے گی۔ کسی جعلی ایف آئی آر میں گرفتار کر کے تھانوں، عدالتوں اور زندانوں میں گھمائے گی۔ اس لیے میں اپنی زندگی پہاڑوں پر گزار رہا ہوں۔”

یاور عباس کی یہ باتیں اب بھی کانوں میں گونج رہی ہیں۔

یاور عباس نگر سے تعلق رکھتا تھا، کراچی میں محنت مزدوری کر کے تعلیم حاصل کر رہا تھا، تعلیم کی وجہ سے شعور میں اضافہ ہوا تو دھرتی گلگت بلتستان کی محرومی کا احساس ستانے لگا، سوشل میڈیا پر اپنے وطن سے اظہار محبت کی پوسٹیں لگائی تو کالا قانون فورتھ شیدول میں ڈالا گیا، کام کاج، تعلیم محنت مزدوری،سب کچھ چھین لیا گیا، مجبورا واپس گلگت بلتستان آنا پڑا۔

یہاں آتے ہی انہیں سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کی پہاڑوں کی تحفظ میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگانے پر دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا، جیل سے ضمانت پر رہائی ملی تو عدالتوں کی مسلسل طلبی اور فورتھ شیڈول کی سفری بندش کی وجہ سے نہ کراچی واپس جا سکا اور نہ ہی گاوں میں سکون سے رہنے دیا گیا۔


یاور عباس ریاستی جبر سے تنگ آکر پہاڑ پر چڑ گئے، اس کے پاس ایک موبائل تھا، یہ موبائل لے کر پہاڑ پر چڑھنے والا گلگت بلتستان کا ایک عظیم مزاحمتکار تھا، یہ اپنے موبائل سے گلگت بلتستان کے پہاڑوں اور خوبصورت وادیو ں کی تصاویر بناتا اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا تھا، اس طرح اور اپنی دھرتی کو دنیا میں اجاگر کرنے اور اپنی مزاحمتی جد و جہد کو جاری رکھے ہوئے تھے۔

24 جون کو مہم جوئی کے دوران پہاڑ کی دامن نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی آغوش میں پناہ دی، بر داس کی دامن میں پناہ لینے ہی یاور عباس کو فورتھ شیڈول، دہشت گردی، غداری کے مقدمات، پولیس کی چھاپے اور نا معلوم کی دھمکی آمیز کالوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزادی ملی اب جبکہ آج یاور عباس کو منوا کرپہاڑ سے نیچے لایا جا چکا ہے اور انہیں اس وطن کی مٹی کے سپرد کیا جا چکا ہے جس سے اسے عشق تھا۔یاور عباس پہاڑ سے نیچے اتر چکاہے اور ان کی پہاروں کو بچانے کے لئے کی جانے والی جد وجہدتاریخ رقم کر چکی ہے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے