ڈئیر سو کالڈ سیاحت کے ادب آداب سے شدید ناواقف قومی ٹورسٹس!

کریم آباد ہنزہ

آپ ہماری سڑکوں پر بالکل ویسے ہی مت دندنائیے جیسے آپ اپنے ہاں سڑکوں پر لگی ٹریفک سائنز کو خاطر میں نہ لا کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیل جاتے ہیں۔ آپ اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر گلگت کی سڑکوں پر خود کو جو طرم خان سمجھ کر گاڑیاں اڑاتے پھرتے ہیں نا، تو یقین جانیں آپ ہماری جانوں اور مال، دونوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ ہماری سڑکیں ہمارے گھروں کے ساتھ لگی ہیں، ہمارے،شہروں، قصبوں اور گاؤں کے بیچوں بیچ یہ سڑکیں گزرتی ہیں۔ جب تک آپ کا جاہل سایہ ہم پر نہیں پڑا تھا، تب تک ہم محفوظ تھے، اب تو لگتا ہے کہ گھر سے باہر نکل تو جائیں گے مگر آپ کی برکت سے، واپسی سلامتی کے ساتھ ممکن ہو، اس کی گارنٹی کوئی نہیں۔

آج نومل تا نلتر روڈ پر لگی نان لوکل گاڑیوں کی ریس میں بہت سکون سے اپنی راہ لئے چلتی میری فیملی کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے رہ گیا ہے کیونکہ سپیڈ کی ساری حدیں توڑتی، موڑ میں اوور ٹیک کرتی گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کو اپنی سواریوں کو نلتر سے ذیادہ شاید جنت پہنچانے کی جلدی تھی، خدا نخواستہ!!

حکومت گلگت بلتستان نے جو لوکل ٹورزم کے نام پر ان بے ادب اور سیاحت کی الف بے سے بھی ناواقف قومی سیاحوں کو اکٹھا کر، جہالت کا مینا بازار گرم کیا ہے، خدارا اسے بند کر دیں یا جگہ جگہ ٹورسٹ پولیس تعنیات کریں اور چوکیاں قائم کریں۔ ان صاحبات و صاحبان کو صرف یہ جلدی ہے کہ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچیں، بھلے اس کے لئے انہیں سپیڈ کی تمام حدیں توڑنی ہوں، یا راہ چلتے مقامی لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا پڑے۔ انہیں پہاڑوں سے گزرتی سڑکیں کسی فلم یا ڈرامے کا منظر لگتی ہیں شاید، اسی لئے گاڑیوں کو کھلونے اور سفر کو کھیل سمجھ کر چلاتے ہیں۔

دوسری طرف مجھے ان خواتین کو دیکھ کر شدید افسوس ہوا، جب محرم الحرام کی حرمت میں لگی سبیلوں کے سامنے، کچھ سیاح خواتین نے فیشن شو کا سا منظر رچا رکھا تھا۔ انتہائی نامناسب لباس، ہر زاویے سے تصاویر اور مقامی لوگوں کی تکلیف کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے۔۔۔شکر کریں کہ ہم آپ جیسے شدت پسند یا جاہل نہیں، ورنہ ایسے مناظر سے فساد کے راستے نکلنا کوئی بعید بات نہیں۔

کیا یہ بے حسی ہے یا لاعلمی؟ یہ سرزمین ہماری ہے، ہمارا عقیدہ، ہماری روایات، اور ہمارے جذبات اس کی مٹی میں گندھے ہیں۔ سیاحت کا مطلب صرف خوبصورت مناظر دیکھنا نہیں ہوتا، یہ درحقیقت مقامی ثقافت، مذہب اور اقدار کو سمجھنے اور عزت دینے کا نام ہے۔ اگر آپ ان علاقوں کو صرف تفریحی پارک سمجھ کر آئیں گے تو یقین جانیے، یہ زمین ایک دن خود آپ کو رد کر دے گی۔ خدارا! سیکھ کر آئیں وہ آداب اور احترام جو ان لوگوں کا بنیادی حق ہے، جن کی پرائیویسی اور زندگیاں آپ اپنی جہالت بھری سیاحت کے ہاتھوں پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم کشادہ دل لوگ ہیں، آپ کی آمد سے ہمیں خوشی بھی ہوتی ہے، لیکن یہ خوشی تبھی قائم رہ سکتی ہے جب آپ ہمیں ہماری جگہ، ہماری ثقافت، اور ہمارے سکون کے ساتھ قبول کریں۔ ورنہ یہ در و دیوار بول اٹھیں گے کہ "مہمان وہی اچھا جو میزبان کا لحاظ جانتا ہو۔”

یہ کیسی تربیت ہے آپ کی جو آپ کو اجازت ہی نہ دے کہ آپ نہ ہمارا لحاظ کریں، نہ ٹریفک قوانین کا پاس رکھیں اور نہ ہی ماحول دوستی کا کوئی ثبوت دیں۔ آپ ہمارے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے اور شہر کی بھاگ دوڑ سے کچھ دیر کے لئے ہی سہی، مگر پہاڑوں کے دامن میں بسی وادیوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ مگر جاتے جاتے آپ پلاسٹک کی بوتلیں، چپس کے خالی پیکٹس، سگریٹ کے ٹکڑے، بچوں کے استعمال شدہ ڈائپرز، اور وہ سب کچھ چھوڑ جاتے ہیں جو ایک باشعور انسان اپنے گھر میں بھی زمین پر پھینکنے کا سوچے تو شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ نلتر ہو، بگروٹ، شندور ٹاپ ہو، یا عطاآباد جھیل یا کارگاہ نالہ۔۔۔ہر جگہ آپ کی "یادگاروں” نے جنگلوں، چشموں، جھیلوں، اور پہاڑوں کے دامن کو کوڑا دان میں بدل کر رکھ دیا ہے۔

ہماری فطرتی خوبصورتی صرف آپ کی تصویریں لینے کے لیے نہیں، بلکہ حفاظت کرنے کے لیے ہے۔ آپ کے پیچھے رہ جانے والے کوڑے کے ڈھیر نہ صرف ہمارے سیاحتی علاقوں کے حسن کو برباد کر رہے ہیں بلکہ جانوروں، آبی حیات اور خود انسانوں کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ سیاحت صرف سفر نہیں، ایک تہذیب ہوتی ہے۔ اس میں راستے کا، میزبان کا، موسم کا، مذہب کا، اور ماحول کا خیال رکھا جاتا ہے۔ آپ آئیں ضرور لیکن اپنے کیمرے سے پہلے کردار لائیے، اور طوفان نہیں احساس اور شعور سڑکوں پر لے آئیے۔ کیونکہ گلگت بلتستان کی وادیوں کو آپ کے کیمرے سے زیادہ آپ کے باشعور کردار اور مہذب شہری ہونے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

والسلام!

میمونہ عباس

ایک مقامی باشندہ، جس کی زندگی،آپ کی آمد سے پہلے نہایت پرسکون تھی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے