گلگت بلتستان کی سرزمین نے ایک بار پھر اپنے ایک سچے سپوت کو کھو دیا۔
گزشتہ دو سالوں میں وطن کے دو عظیم فرزند خاموشی سے رخصت ہو گئے۔ پہلے وجاہت حسن مرزہ، وہ مردِ درویش، جس نے مراعات، پروٹوکول اور آسان راستوں کو ترک کیا۔ وطن کی سچائی اور وقار کے لیے وہ در بدر ہوا، دیارِ غیر کی جبری ہجرت برداشت کی، اور آخرکار خاکِ وطن میں آسودہ ہوا — آنکھوں میں گلگت بلتستان کے تابناک کل کا خواب سجائے۔
اب یاور عباس بھی ہمارے درمیان نہیں رہا۔
یاور، وہ نوجوان جس نے کراچی کے ہنگاموں میں محنت کی، تعلیم حاصل کی، اور شاید ایک بہتر ذاتی زندگی کا خواب بھی دیکھا ہو۔ لیکن جب اسے اپنی قوم کی محرومیوں کا ادراک ہوا، تو وہ سب خواب پسِ پشت ڈال کر، وطن کی مٹی کا عاشق بن گیا۔ وہ مٹی جس سے عشق کرنے والوں کو آسان زندگی نہیں ملتی — بلکہ قربانیوں کی ایک طویل فہرست ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
یاور نے بھی یہی راستہ چُنا — اور آٹھ سال مسلسل قیمت ادا کرتے کرتے، کل وہ پہاڑوں سے گر گیا۔ ساری رات، ایک غیرآباد، سنسان، اور سرد وادی میں، وہ پہاڑوں کے دامن میں پڑا رہا۔ شاید وہ آخری لمحے تک ان پہاڑوں کو تکتا رہا، جنہیں اس نے اپنی محبت کا مرکز بنایا۔ اور جب اس کی سانس ٹوٹی، تب پہاڑوں نے بھی اپنے محبوب کو خاموش نظروں سے دیکھا ہوگا — ایک خوبصورت، باہمت چہرہ، جو ان کے قدموں میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔
یاور نے صرف اپنی جان نہیں دی — اس نے اپنی تعلیم، اپنے خواب، اور اپنا مستقبل بھی قربان کیا۔ وہ نوجوان جو گھر کی آسائش، خاندان کی خوشیوں اور ذاتی کامیابیوں کے راستے پر جا سکتا تھا، مگر اس نے قومی درد کو اپنا لیا۔ ایسے نوجوان صرف افراد نہیں، قومی اثاثے ہوتے ہیں۔
آج ان کی جدائی پر صرف ان کے ہم خیال افسردہ نہیں، بلکہ وہ بھی جنہوں نے کبھی اختلاف کیا — خاموشی میں ڈوب گئے ہیں۔
میری یاور سے چند ہی ملاقاتیں ہوئیں، پہلی بار تب جب ان کا نام شیڈول فور میں ڈالا گیا۔ اسلام آباد میں ایک مختصر ملاقات نے دل میں ان کے لیے عزت اور محبت پیدا کر دی۔ اور پھر وقتاً فوقتاً وہ ادھوری ملاقاتیں — جو آج مکمل جدائی میں بدل چکی ہیں۔
شینا میں کہا جاتا ہے: شل میریجوت اک نے میریجوت جس کے مطلب ہیں: "سو مرے، ایک نہ مرے”۔
یاور وہ "اک” تھا — جو اگرچہ جسمانی طور پر نہیں رہا، مگر اس کی یاد، اس کی فکر، اس کی جرأت، ہمیشہ زندہ رہے گی۔
یاور، تم میرے لیے صرف ایک بھائی ہی نہیں، بلکہ اس مٹی، ان پہاڑوں، ندی نالوں، چٹانوں اور صحراؤں کی آواز تھے۔ تمہاری جرأت اور جدوجہد کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔
جواب دیں