کبھی کبھار کچھ لوگ اپنی ذات میں ایک مکمل تحریک ہوتے ہیں۔ وہ مختصر زندگی جیتے ہیں، مگر ایسے کام کر جاتے ہیں جو زمانے صدیوں میں بھی نہ کر پائے۔ یاور عباس بھی ایسا ہی ایک خواب تھا، جو نگر کی وادیوں میں شعور کی روشنی لیے ابھرا اور انہی پہاڑوں کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔
یاور ایک نڈر، بے باک اور باشعور نوجوان تھا۔ وہ مظلوموں کی آواز، شعور کا پیغام اور بیداری کی امید تھا۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت، شناخت، محرومیاں اور ناانصافیاں اُس کی سوچ اور تحریر و تقریرکا مرکز تھیں۔
وہ صرف تنقید نہیں کرتا، لوگوں کو جھنجھوڑتا اور نوجوانوں کو سچ بولنے کا حوصلہ دیتا تھا۔مگر سچ بولنے کی قیمت اسے چکانی پڑی۔ ان پرمقدمات بنے، جیل کاٹی، شیڈول فور میں نام آیا، نقل و حرکت محدود ہوئی۔ مگر یاور کا مؤقف واضح تھا:
"جس نے کربلا کو سمجھا ہو، وہ سچ سے پیچھے نہیں ہٹتا۔”
پچھلے کچھ عرصے سے وہ گاؤں میں مقیم تھا، پہاڑوں میں ٹریکنگ، احتجاجوں میں شرکت اور فطرت سے ہمکلامی اُس کی زندگی بن گئی تھی۔ اور وہی پہاڑ ایک دن اس کی آخری منزل بن گئے۔
ٹریکنگ کے دوران یاور ایک پہاڑ سے گر کر یاور دنیا سے رخصت ہو گیا۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی، ہر باشعور دل نے آہ بھری۔ مگر وہ صرف جسمانی طور پر رخصت ہوا۔ اس کی سوچ، اس کا مشن اور اس کی شمع آج بھی جل رہی ہے۔
یاور عباس، تم پہاڑ سے نہیں گرے، تم ہمارے دلوں میں اُتر گئے ہو۔
اللہ تعالیٰ تمہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اورلواحقین کو صبروجمیل عطا کرے۔ آمین!
جواب دیں