کون سمجھے اس قلبِ شکستہ کی تپش

یاور عباس - Gilgit-Baltistan - Yawar Abbas

آہ! کون سمجھے اس قلبِ شکستہ کی تپش، کون پڑھے اس روحِ نالاں کی روداد؟ کائناتِ غم کے اس سنگین ترین لمحے میں، جب ہماری آنکھوں کے سامنے سے ایک آفتابِ معنی فروغِ پایاں پایا، ایک ہمالہ جیسی استقامت خاک میں مل گئی، تو قلم کانپتا ہے، الفاظ بےجان ہیں، اور آنسو ہی سیاہی بنے ہیں۔ یارِ غمگسار، رفیقِ جاں نثار، محترم یاور عباس، اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ صرف پانچ برس کی رفاقت؟ مگر اے کاش! زمانہ نے اس گہرے رشتے کو پنپنے کا موقع دیا ہوتا۔ وہ مختصر سی مدّت میں انہوں نے اپنی ذات سے ایسا بحرِ بیکراں بنا دیا کہ ہر ملاقات گہرائیوں کا سفر بن گئی۔

یاور! تُو کیا تھا؟ صرف ایک فردِ بشر نہیں، بلکہ گلگت بلتستان کے دامنِ کہسار میں پیدا ہونے والا ایک زندہ انقلاب تھا۔ تیری آواز، جو مظلوم کی فریاد تھی، محکوم کی آہ تھی، پسے ہوئے طبقات کا نعرۂ حق تھی، آج ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ تُو سرِ بازارِ ظلم، جبر کے تختوں کے سامنے، سچ کا علم بلند کرنے والا بےخوف سپاہی تھا۔ "سچ بولنا” تیرا اوڑھنا بچھونا تھا، خواہ اس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑتی۔ تیری جرأت، تیری بےباکی، تیری صداقت کی تلوار ہمیشہ استبداد کی تاریکیوں کو چیرتی رہی۔

اے میرے عزیز یاور! تُو صرف ایک سیاسی کارکن نہ تھا، تُو تو انسانی وقار کا مجسم نقیب تھا۔ تیرا دماغ، ایک عظیم دانشگاہ تھا جہاں سے ترقی، انصاف اور مساوات کے وہ دریا پھوٹتے تھے جو گلگت بلتستان کی خشک زمین کو سیراب کرتے تھے۔ تُو مفلوک الحال مزدور کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتا تھا۔ محروم و مقہور عورت کی آہ تیرے وجود میں زلزلہ برپا کر دیتی تھی۔ ہر سسکتی ہوئی روح تیرے لیے ایک مقدس امانت تھی۔ تیرا ترقی پسند نظریہ کوئی کتابی بھولبلییا نہ تھا، بلکہ مظلومیت کی چکی میں پسے ہوئے لاکھوں چہروں کا عکس تھا۔ تُو نے علم کو عوام کی نجات کا ہتھیار بنایا، شعور کو انقلاب کا بیج بویا۔

آج جب تُو ہم میں نہیں، تو محسوس ہوتا ہے جیسے فکر و عمل کی دنیا سے ایک ستونِ رفیع گر گیا۔ تیرا خالی کرسی تیرے جیسے ہمہ گیر اور بے باک انسان کا شدید فقدان چلاّ رہی ہے۔ ہم محرومینِ یار، تیرے چہرے کی تابانی، تیرے لہجے کی گرمی، تیرے جذبے کی آگ، اور تیری رفاقت کی مٹھاس کے لیے ترستے رہیں گے۔ تیرا انتقال صرف ذاتی دکھ نہیں، بلکہ پورے خطے، پوری انسانیت دوست تحریک کا ایک ناقابلِ تلافی خسارہ ہے۔ یہ صدمہ اتنا گہرا، اتنا کرب ناک ہے کہ الفاظ اس کے اظہار سے قاصر ہیں۔ یہ زخمِ فرقت کبھی مندمل نہ ہو گا۔

یاور عباس! تُو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو گیا، مگر تیری فکر کی شمعیں، تیری جدوجہد کی داستانیں، تیری صداقت کی گونج، اور تیری انسانیت کی محبت ہمیشہ روشن رہیں گی۔ تُو اپنے پیچھے صرف سوگوار چہرے نہیں، بلکہ ایک ایسا چراغِ راہ چھوڑ گیا ہے جو ہر تاریک راستے میں امید کی کرن بنے گا۔ ہم تیرے نقشِ پا پر چراغ رکھتے ہیں، اور عہد کرتے ہیں کہ تُو نے جو مشعل فروزاں کی ہے، ہم اسے کبھی مدہم نہ ہونے دیں گے۔ تیرا پیغامِ حق، تیرا جذبۂ انقلاب، ہماری رگوں میں ہمیشہ دھڑکتا رہے گا۔

اے مالکِ کون و مکاں! اس عظیم روح کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔ اس کی خطاؤں کو معاف فرما، اس کی نیکیوں کو قبول فرما، اور اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ اس کے سوگوار خاندان، دوستوں اور پورے گلگت بلتستان کو صبرِ جمیل عطا فرما۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

ہائے یاور! تُو نہ رہا… مگر تیری یاد، تیرا کام، تیرا عزم ہمیشہ زندہ رہے گا۔

رہتی دنیا تک تیرا نام روشن رہے گا۔

الوداع اے عزیز ترین ہمدم! الوداع اے شہسوارِ حق گوئی!

تُو ہمیشہ ہمارے دلوں میں بسا رہے گا۔

(تحریر: تیرا غمزدہ رفیق)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے