ہم غمزدہ ہوں گے کہ یاور عباس وہاں کیوں مرا، یہاں کیوں نہیں مرا، تجھے اور جینا تھا، ابھی زندگی باقی تھی۔۔۔ مگر جتنا جیا وہ جینے سے کم تھوڑی تھی؟ ہمیشہ سینا چوڑا رکھا۔ مفاد پرستوں اور فکری غربت کا شکار لوگوں کے سامنے اپنی بساط کے مطابق کھڑا رہا۔ جیلوں سے گھبرایا نہیں۔ شیڈول فور سے گھبرایا نہیں ہے، ستایا گیا اف نہیں کیا، شناختی کارڈ تک بلاک کیا لیکن اف تک نہیں کیا۔ ہمیشہ منزل پر نظر رکھی اور راستوں کی پرواہ نہیں کی۔
آج ان کی حادثاتی رحلت پر ہر آنکھ اشکبار ضرور ہے مگر ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم تعزیت کریں۔ زندگی میں جس کو اکیلا چھوڑا گیا اس کی میت پر کھڑے ہوکر کیا ساتھ دیں؟ ابھی تو یاور عباس کی رحلت کی خبر بھی نہیں آئی تھی گلگت بلتستان اسمبلی نے 148 ارب روپے کی تاریخی بندربانٹ کردی جس میں غریب اور عام آدمی کےلئے چار روپے نہیں رکھے گئے۔ ایسے بجٹ کے اجلاس بھی یاور عباس جیسوں کی یاد دلاتے رہیں گے مگر ہم مردہ فروش لوگ محض واہ واہ اور گالیوں کے سفر میں محو ہیں۔
اگر آپ کو یاور عباس سے تعزیت کرنی ہے تو نگر جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ چنار باغ گلگت چلے جائیں اور علامتی یادگار شہدا میں جاکر اس بات کا عزم کریں کہ اس نوجوان کی سوچ کو اپنائیں گے۔ اس نوجوان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ گلگت بلتستان کی فکر کریں گے اور گلگت بلتستان کی بات کریں گے۔
گلگت بلتستان کے اور گلگت بلتستان کے پسے ہوئے محکوم لوگوں کی بات کریں گے۔ اس سوشل میڈیا پر اپنی وال اور ٹائم لائن کو گندا کرتے ہوئے بھی سوچیں گے کہ اس سے ہمارے اجتماعی مفادات کو نقصان تو نہیں پہنچے گا؟ اسمبلی میں بھیجنے والوں کا بھی یہی معیار رکھیں گے کہ ہمارے اجتماعی مفادات کا تحفظ ہو۔ چوک چوراہیں گلگت بلتستان کی آواز کی نشاندہی کریں اور گواہیں دیں تبھی ہم یاور عباس اور اس جیسے ماضی میں گزرے ان فرزندان گلگت بلتستان کے ساتھ تعزیت کرنے کی صف میں کھڑے ہونے کی جرأت کرسکتے ہیں۔
إنا لله وإنا إليه راجعون, یاور عباس
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
جواب دیں