Connect with us

کالم

ڈائمنڈ جوبلی سے ڈائمنڈجوبلی تک

منصب امامت کے 60سال مکمل ہونے پر مکتب اسماعیلیہ میں ڈائمنڈجوبلی منانے کا رواج ہے ۔ جس سال 60سال پورے ہوجائیں اس سارے سال مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا رہتا ہے ۔ ان تقاریب کا بنیادی مقصد خوشی اور اپنے امام سے محبت کااظہار کرنا ہوتا ہے۔ 

Published

on

Aga Khan III and Aga Khan IV

1946 میں سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کا ڈائمنڈجوبلی منایا گیا ۔ سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوئم قیام پاکستان کی تحریک میں صف اول کے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے ۔ اس دور میں بھی انہوں نے عالمی سطح پر مسلم امہ کو درپیش مسائل پر اور ان کے حل کے لئے اقدامات کئے ۔ جن میں ایک اہم قدم وہ ہے جب ترکی میں قائم مسلمانوں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرنے کے لئے عالمی سازشیں اور دباؤ عروج پر تھا تو آغا خان سوئم برصغیر سے چیدہ چیدہ مسلم رہنماؤں کے ہمراہ ترکی گئے اور ترک ’خلفاء‘کو ہر قسم کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی کی خلافت مسلمانوں کی ملی جذبے اور اجتماعیت کے لئے ایک علامت ہے ہم اس خلافت کو بچانے کے لئے ہر قسم کا تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔

سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کا گولڈن جوبلی اس حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے اپنی ڈائمنڈجوبلی میں گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ کے میر جمال خان کو 12ہزار روپے بطور امداد فراہم کردئے اور ساتھ میں ہدایت کی کہ اس رقم سے دو جدید سکول تعمیر کئے جائیں اوربقیہ رقم سے سکولوں کا انتظام چلایا جائے ۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں یہ دونوں سکولیں اولین سکول کا درجہ رکھتی ہیں اس سے قبل اس پورے علاقے میں باقاعدہ اور باضابطہ سکولوں کا تصور نہیں تھا۔1946میں قائم کردہ ان دو سکولوں کا نام ڈائمنڈجوبلی سکول رکھا گیا جن کی تعدادآج موجودہ دور میں بڑھ کے سینکڑوں کے ہندسے میں داخل ہوگئے ہیں جب ان سکولوں کے دیکھادیکھی گلگت بلتستان میں سرکاری و نجی سکولوں نے بھی تعلیم کے لئے قدم اٹھایا ۔

سرسلطان محمد شاہ آغاخان سوئم کی اپنی ڈائمنڈجوبلی کے موقع پر یہ اقدام گلگت بلتستان میں تعلیم کے بنیاد ڈالنے کا سبب بنا اور یقینی بات ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ اور علاقہ ترقی نہیں کرسکتا ہے ۔ ان سکولوں سے اب تک ایک ہزار سے زائد طلباء و طالبات سکالرشپ حاصل کرچکے ہیں اور تعلیم سے فراغت پانے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہیں۔

ڈائمنڈجوبلی سکولز کے حوالے سے آغان خان ایجوکیشن کے سینئر منیجرز شاہ اعظم اور بلبل خان نے گزشتہ روز ’ڈائمنڈجوبلی سے ڈائمنڈجوبلی تک‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ ’ڈائمنڈجوبلی سے ڈائمنڈجوبلی تک‘کا تصور آغا خان ایجوکیشن سروسز گلگت بلتستان پاکستان نے دیا تھا جس میں حاضر امام ہزہائینس پرنس کریم آغا خان اور سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کے ڈائمنڈ جوبلی کو ملاکے منایا گیا ۔ اور یہ ایک خوبصورت ملاپ تھا کہ آغا خان سوئم نے اپنے ڈائمنڈجوبلی میں گلگت بلتستان میں سکول اور تعلیم کی بنیاد ڈالی جبکہ ہزہائینس پرنس کریم آغا خان (موجودہ امام) اپنے ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب میں اس عہد اور اس مشن کی تکمیل کے لئے پر عزم نظر آئے ۔

ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کی ڈائمنڈجوبلی 11جولائی 2017میں منائی گئی ۔ جبکہ اس حوالے سے ہزہائینس پرنس کریم آغا خان نے گلگت بلتستان کا دورہ دسمبر میں کیا جہاں انہوں نے یاسین غذر اور ہنزہ میں اپنے پیروکاروں کو شرف دیداری بخشی اور خطاب بھی کیا ۔ ڈائمنڈجوبلی کے حوالے سے حکومت پاکستان نے انہیں باقاعدہ دعوت دی تھی جو کہ 13دنوں پر محیط تھا ۔دورے کے موقع پر انہوں نے چترال ، غذر، ہنزہ اور کراچی میں اپنے پیروکاروں کو شرف دیداری بخشی ۔

گلگت بلتستان میں دیداری کا موقع نہ صرف اسماعیلی مسلمانوں کے لئے بلکہ یہاں پہ بسنے والے تمام مسلمانوں کے لئے نہایت خوشگوار لمحہ تھا ۔ دیداری کا انتظام ضلع غذر کے علاقے یاسین میں مورخہ 10دسمبر جبکہ ضلع ہنزہ کے علاقے علی آباد میں بھی اسی روز دوپہر کے وقت تھا ۔ جس کے لئے گلگت بلتستان بھر سے اسماعیلی مسلمان اپنے روحانی پیشوا کی دیداری کے لئے گھر بار چھوڑ کر کئی روز پہلے ہی ’خیمہ زن ‘تھے۔ اس دوران گلگت بلتستان میں بسنے والے تمام افراد نے نہ صرف اسماعیلی مسلمانوں کے گھروں کی حفاظت کی زمہ داری لے لی بلکہ ہز ہائینس کا شاندار استقبال بھی کیا ۔ ضلع غذر میں بسنے والے اہلسنت برادری نے اسماعیلی والنٹیئرز کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا اور یاسین میں یہاں تک کہ دیدار کے لئے آنے والے زائرین کے لئے گھروں کے دروازے بھی کھول دئے ۔

ضلع ہنزہ میں دیدار ی کے لئے شاہراہ قراقرم پر ٹریفک کی روانی کے لئے امامیہ سکاؤٹس نے مکمل زمہ داری لی اور اس زمہ داری کو بخوبی احسن طریقے سے سرانجام دیا ۔ جس کا مقامی سطح پر ریجنل کونسل نے برملا اعتراف بھی کیا ۔ ہز ہائینس پرنس کریم آغا خان 10دسمبر کو چترال سے بذریعہ ہیلی کاپٹر یاسین آئے جہاں پر شرف دیدار ی بخشنے کے بعد گلگت ائیرپورٹ پر اترے ۔ جہاں پر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اپنے کابینہ ممبران کے ہمراہ جبکہ

چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ڈاکٹر کاظم نیاز (سابق)انتظامیہ کے زمہ داران کے ہمراہ استقبال کے لئے موجود تھے۔ جبکہ فورس کمانڈر ایف سی این اے میجر جنرل ثاقب محمود سیکیورٹی کے امور پر معمور تھے اور تمام حالات کا ازخود جائزہ لے رہے تھے۔ گلگت میں مختصر قیام کے دوران انہوں نے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے ساتھ مختلف شعبہ جات میں باہمی تعاون پر رضا مندی ظاہر کی اور گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ’گلگت بلتستان میں امن و امان اور معیشت کی صورتحال سے وہ بے خبر نہیں ہیں‘۔ شرف دیداری بخشنے کے بعد ہز ہائینس پرنس کریم آغا خان نے اپنے پیروکاروں کو دیگر مسالک کے ساتھ ہم آہنگی پرزور دیا ۔

جس طرح آغا خان سوئم سرسلطان محمد شاہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اسی طرح سماجی ترقی ، تعلیم اور صحت کے میدان میں ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کی خدمات بھی قابل قدر ہیں ۔ 1982-83میں قائم کردہ AKRSP اب تک اس خطے میں اربوں مالیت کے منصوبے مکمل کرچکا ہے جس کا بنیادی مقصد دیہی علاقوں میں ترقی اور بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے ۔

سپیکر جی بی اسمبلی فدا محمد ناشاد کہتے ہیں کہ جب پہلی بار اے کے آر ایس پی کا قیام عمل میں لایا گیا تو میں ضلع کونسل سکردو کا چیئرمین تھا ، میں نے اے کے آر ایس پی کو سکردو تک توسیع دینے کے حوالے سے درخواست دی جسے ریجنل انچارج شعیب سلطان خان نے وصول کی اور منظوری کے لئے آگے بھیج دیا جس کے جواب میں ہزہائینس پرنس کریم آغا خان نے کہا کہ اے کے آر ایس پی کو سکردو تک توسیع دینے میں کوئی دشواری نہیں ہے مگر اس کی توسیع سے قبل علاقے کے تمام زعماء اور علماء سے اس کی توثیق کرائی جائے میں نہیں چاہتا ہوں کہ اس بنیاد پر کسی قسم کا نقص امن یا کوئی اور معاملہ پیش ہوجائے ۔ جس پر میں (فداناشاد) نے سکردو کے تمام مکاتب کے علماء کو اکھٹا کرکے اس حوالے سے رائے لی تو سب نے اپنے دستخط کردئے جس کے بعد باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اے کے آر ایس پی سے ان تمام علاقوں نے استفادہ حاصل کیا ہے جنہوں نے خواہش کی ہے ۔

ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کے دورہ گلگت کے حوالے سے راقم نے قومی اخبار ایکسپریس کے بلاگ میں کالم بھیجا تھا جو اگر چہ چھپ گیا تاہم چند روز میں ہی دوبارہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر بلاگ سے ہٹایا گیا جس کی خبر بھی بڑی دیر سے ملی ۔ ’ڈائمنڈجوبلی سے ڈائمنڈجوبلی تک ‘تقریب میں شرکت کرکے یہ خیال دوبارہ زندہ ہوگئی کہ موضوع اب بھی قابل اشاعت ہے اور اتفاق سے ڈائمنڈجوبلی (موجودہ امام) کی پہلی سالانہ تقریب بھی 11جولائی کو منعقد ہورہی تھی جس پر یہ کالم رقم کیا ہے اور بنیادی مقصد انسانیت کے لئے کام کرنے والے ان شخصیات کی خدمات کو سراہنا ہے۔

فہیم اختر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے میڈیا کمیونیکیشز میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد روزنامہ کے ٹو اور روزنامہ سماؐ اسلام آباد سے منسلک ہیں۔ ساتھ ہی وہ پاکستان فیڈرل کونسل برائے کالمسٹ جی بی کے صدر بھی ہیں۔

Advertisement
Click to comment

سماجی مسائل

سیکولر گلگت بلتستان وقت کی ضرورت

Published

on

میثم قاسمی

سب سے پہلے میں سیکولر کی تعریف کرنا چاہونگا – سیکولر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے عقائد پے پابند رہنا ،دوسرے کے عقائد کے خلاف بات نہ کرنا اور ریاست کے معاملات سے مذہب کا کوئی تعلق نہ ہونا – سیکولر کا مطلب لا دین ہونا ہرگز نہیں –

ہمیں سیکولر گلگت بلتستان چائیے جہاں شیعہ سنی اسماعیلی اپنی مرضی سے اپنے عقائد پے عمل پیرا بھی ہوں اور وہ دوسرے مسالک پہ اپنے عقائد بھی مسلط نہ کر سکیں –

ہمیں سوچنا ہوگا ہمیں کیسے توڑا گیا پہلے مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی ، پھر شین ،یشکن کَمِن کے نام سے آپس میں لڑایا گیا -ہماری زمینوں پہ خالصہ سرکار کے نام پہ قبضے کیے گئے -پرائیویٹائزیشن کے نام پے ہمارا وسائل پے حملہ ہوا –

کیا ہمارے انفراسٹرکچر پے توجہ دی گئی ، ہیلتھ کیئر کا نظام بدلا ، کوئی آکسیجن پلانٹ گلگت بلتستان میں لگا، ڈاکٹروں کے لیے کوئی ٹیچنگ ہسپتال بنا ، کوئی انجینرنگ کالج تعمیر ہوا ، انٹرنیٹ کی فراہمی میں جدت آئی؟ ملازمت کے لیے کوئی نظام دیا گیا ہو ؟ سی ایس ایس کا کوٹا مزید کم کر دیا گیا – بجلی و پانی کا بحران ختم ہوا؟

کیا ہماری مذہبی قیادت نے ہماری 70 سالہ سیاسی و قانونی اور سماجی محرومیوں پے کبھی کوئی مل کر بات کی کوئی قرارداد شیعہ سنی اسماعیلی نے مل کر علاقے کی ترقی کے لیے دی ہو ؟ کوئی مناظرہ کسی ترقیاتی پروجیکٹ پے ہوا ہو ؟ کیا شیعہ سنی قیادت نے مل کر یوتھ کے لیے کوئی ملازمت کا پلان دیا ، بنیادی حقوق پے کبھی مل کہ بات کی گئی ؟

ہمیں طبقاتی نظام نے جکڑ لیا اور اشرافیہ ہم پے قابض بھی اسی لیے رہی کیونکہ ہم نے اجتمائی حقوق اور مسائل پے کبھی بیٹھ کر بات ہی نہیں کی نہ ہمیں بات کرنے کا موقع دیا گیا -سیاست میں بھی ہم نے مساجد کا استعمال کیا تبھی مسلکی اناد بڑھا –

جو جیسا ہے جس مسلک سے بھی ہو ہمیں اس کے عقیدہ سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہے – عقائد کو انفرادی حد تک ہی رکھنا دانش مندی اور وقت کی ضرورت ہے ورنہ ماضی کی طرح گلگت بلتستان خون میں رنگتا رہے گا اور اشرافیہ ہم پہ مسلط رہے گی۔

Continue Reading

بلاگ

گلگت چترال روڈ

Published

on

سنہ 2000ء میں بننے والے اس سڑک کی حالت اب قابلِ رحم ہے اور قابلِ غور بھی ہے کبھی کہتے ہیں یہ سڑک ملک پاکستان کے سب بڑے پراجیکٹ سی پیک میں شامل ہے تو کبھی کہتے ہیں یہ تاجکستان سے پاکستان آنے والے روڈ کا حصہ ہے کبھی تو اس کے ٹینڈر بھی ہونے کی خبر بھی پھیلتی ہے تو کبھی افتتاح کے فیتے بھی کاٹے جاتے ہیں مگر حقیقت کا پتا نہیں۔

2010ء میں آنے والے سیلاب نے اس سڑک کو مکمل طور پر متاثر کیا کئی دنوں بعد سڑک ٹریفک کے لئے بحال ہو گیا مگر کئی جگہوں میں کھڈے ایسے رہ گئے اور بچی کثر کو بعد میں آنے والے زلزلے نے پورا کیا جس کے بعد گاڑیوں کے لئے بحال کیا مگر مکمل مرمت نہیں ہوئی۔ اسی سڑک میں سینکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں سیلاب “لینڈ سلائیڈنگ” ہو ہی جاتی ہے جب وقت ہوتا ہے اور اس سڑک پہ اتنے زیادہ موڑ ہیں جیسے کسی بچے نے سفید کاغذ پہ پینسل سے ٹیڑھی لکیریں کھینچی ہو اس رستے سے دن میں سینکڑوں پیسنجر گاڑیاں گزرتی ہیں۔

ایمرجنسی مریضوں کو وقت پہ ہسپتال پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے “کانڇی موڑ” علاوہ بھی کئی جگہے ہیں جہاں مٹی کے تودے اور بڑے پتھر کسی وقت گاڑی کے چلنے سے زمین میں جو وائبریشن ہوتی ہے اس سے گرے تو کوئی حادثہ ہو سکتا ہے اور یہ وہی سڑک ہے جسے چترال روڈ کہا جاتا ہے دنیا کا بلند ترین پولوگراونڈ گراؤنڈ اور میلہ شندور کے لئے یہاں سے گزرنا ہوتا ہے نہایت خوبصورت پھنڈر ویلی بھی یہاں واقع ہے کارگل مارکہ میں نشان حیدر لینے والے گلگت بلتستان کا بہار بیٹا لالک جان کے مزار کے لئے بھی یہاں کے گزر کے جانا ہے۔

حالیہ دنوں ہونے والے سنو فیسٹیول ” خھلتی جھیل” جو کہ سردیوں میں اس جھیل پہ برف جم جاتا ہے اور اپنی خوبصورتی کی طرف مائل کرتی ہے مگر کوئی آئے تو کیسے اس سڑک کے خستہ حال کی وجہ سے ٹورسٹ کا رخ یہاں کی طرف کم ہے اگر یہ ہائی وے بن جاتا ہے تو کئی سیاحوں کا رخ اس طرف ہوگا اور مقامی لوگوں کی زندگیاں بھی آسان ہوں گی کسی نے کہا ہے علاقے کی ترقی میں اچھے سڑک کا کردار ہوتا ہے۔

ضلع غذر ابادی کے لہاظ سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور ضلع غذر کو شہیدوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ضلع غذر اک خوبصورت ضلع یہاں سیاح آتے تو ہیں مگر کم اس کی وجہ یہی سڑک اک مہینہ پہلے بھی افتتاح کیا مگر اب تک کوئی پتا نہیں۔

Continue Reading

سماجی مسائل

ہم نے اپنے گھروں کو ڈوبتے دیکھا

Published

on

لینڈ سلائڈنگ کا مخصوص وقت ہوتا ہے جو کہ اپریل سے ستمبر کے پہلے ہفتے تک رہتا ہے جس میں آسمانی بجلی کی گرج چمک اور تیز بارش کے باعث پہاڑوں پہ گری آسمانی بجلی اپنے سامنے آنے والی ہر چیز درخت پتھر مٹی کھیت گھر جانور انسان کو اپنے ساتھ ملا کے انتہائی خوفناک شکل میں دریا تک پہنچتی ہے۔ اس کی وجہ سے دور تک زلزلے کی جیسی ڈراؤنی آواز آتی ہیں اور سننے والا ہر شخص کانپے لگتا ہے۔

2 ستمبر کی شام ہمارے محلے میں اندزہ ہونے لگا کہ سیلاب کا خطرہ ہے کیونکہ پچھلے 48 گھنٹوں سے بارش بلکل رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سب لوگ خوف اور پریشانی میں تھے۔بارش تیز سے تیز ہو رہی تھی۔ میں گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پیٹرول پمپ کے ساتھ جو کہ پہاڑ سے آنے والا بارش کے پانی کا راستہ ہے وہاں بار بار جا کر معائنہ کرتا رہا۔ رات کے تقریبا ساڑھے بارہ بجے مجھے اندازہ ہوگیا کہ پانی کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے۔محلے کے تقریبا سارے ہی لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔

دو دوستوں کے علاوہ میرا کسی کے ساتھ رابطہ نہ ہو سکا پھر میں گھر میں اپنے کمرے میں لیٹا گھر کی چھت پہ بارش کے تیز رفتار قطروں نے سونے نہ دیا۔ کچھ ٹائم بعد میں موبائل میں نے ٹائم دیکھا تو رات کے 03:13 بجھ گئے تھے۔ موبائل سرہانے کے ساتھ رکھا ہی تھا کہ کال آئی۔ کال اٹھایا تو ایک دوست نے کہا لہ جلدی سے اپنے گھر والوں کع باہر نکالو سلائڈنگ ہورہی ہے اور سیلاب کا رخ ہمارے محلے کی جانب ہے۔

اس وقت کا خوف اور ڈر شاید ہی بیان نہیں کرسکوں۔ جلدی سے اٹھا، سارے گھر والوں کو جگایا اور بڑی مشکل سے صرف ایک دوست کو کال لگی جسے میں نے خبردار کیا۔ تھوڑی دیر بعد نیٹ ورک نے بھی جواب دے دیا اور کسی کو کال نہ کر سکا۔ میں گھر والوں کو باہر نکالنے دروازے پر نکلا تو دیکھا کہ سیلابی پانی دروازے تک پہنچ چکا ہے۔

گھر والوں بمشکل باہر نکالنے لگا اور دادی اماں جن کی عمر تقریباً 120 برس ہے انھیں لینے آندھرے میں گھر دوبارہ داخل ہوا تو محلے کے ہر طرف سے چیخ پکار کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔

باہر کافی لوگ ننگے پاوں تھے اور زیادہ تر لوگ نیند کی حالت میں تھے۔ سردی بھی تھی اور بارش تیز سے تیز ہو رہی تھی جبکہ سیلابی پانی اور لوگوں کی آوازیں دور تک گھونج رہی تھیں۔ یہ ایسا قیامت خیز منظر تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گھر والوں کو محلے سے باہر محفوظ مقام پر نکالنے کے بعد کچھ اہم اشیاء لینے جب دوبارہ گھر کی طرف جانا چاہا تو دیکھا کہ سارا محلہ پانی میں ڈوب چکا ہے اور کسی صورت گھر پہنچنا ممکن نہیں۔ کچھ وقت انتظار کے بعد آخر بڑی مشکلوں سے اپنے چھوٹے بھائی اور کچھ دوست سمیت ایک دوسروں کے ہاتھ پکڑھ کر گرتے ڈوبتے ہوئے گھر تک پہنچے۔ گھر کے سارے کمروں میں پانی بھر چکا تھا۔ ایک کھڑکی کی جالی پھاڑ کر اندر داخل ہوئے اور اپنے ضروری دستاویزات، کاغذات اور نقدی رقم نکالنے میں کامیان ہوئے۔ واپسی پر دیکھا کہ پانی کا بہاؤ اور زیادہ ہو رہا ہے اور ساتھ ہی بارش بھی تیز ہو چکی تھی۔ رستے میں ایک اور دوست سے بات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے گھر کی دیواریں گر چکی ہیں اور ہم بمشکل اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلے ہیں۔

صبح ہوئی تو پتا چلا محلے کے 64 گھرانے سیلاب کی زد میں میں آچکے ہیں۔ محلے کے کم و بیش سارے رہائشی بےگھر ہوچکے تھے۔ بعض نے اپنے دوست رشتہ داروں کے گھر اور بعض نے ہوٹلوں میں 3 دن گزارے اور حالات جب بہتر ہوئے تو اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ محلے کی کوئی گلی سڑک مکان سلامت نہیں رہا تھا۔ حکومت کی طرف سے کوئی امدادی کاروائی نہ ہونے کے بعد محلے والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مرمت کا کام شروع کیا اور تاحال جاری ہے۔

Continue Reading

مقبول تریں