گلگت بلتستان کی مٹی ہمیشہ ایسے فرزندان کو جنم دیتی رہی ہے جنہوں نے اپنے علم، فکر اور جذبے سے معاشرے کو روشنی بخشی۔ مگر افسوس کہ یہ سرزمین بار بار اپنے ہونہار بیٹوں کو کھو رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں یاور عباس، جاوید ناجی، میثم کاظمی اور اب کریم شاہ نزاری کی جدائی نہایت دکھ اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
یاور عباس اور جاوید ناجی میرے دیرینہ دوست تھے۔ یاور عباس کی گفتگو نرم مزاجی اور اخلاص کی آئینہ دار تھی۔ آخری بار ان سے فون پر رابطہ ہوا تھا۔ عید کے دنوں میں شیرقلعہ نالے جانے کا منصوبہ بنایا، مگر افسوس کہ اس کے ایک ماہ بعد وہ پہاڑوں میں حادثے کا شکار ہو گئے۔
جاوید ناجی سے میرا رابطہ 2010 سے 2018 تک رہا۔ وہ ایک سنجیدہ اور بامقصد نوجوان تھے۔ گلگت بلتستان کی سیاست اور معاشرت میں ان کی دلچسپی ہمیشہ مثبت رخ رکھتی تھی۔ ایک قبائلی سماج میں انہوں نے مزاحمتی سیاست کو اپنایا اور بالآخر ناحق مارے گئے۔
میثم کاظمی سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی، لیکن وہ میرے نظریاتی اور ہم خیال دوست تھے۔ ان سے واٹس ایپ اور فیس بک پر گفتگو ہوتی رہی۔ میثم ان نوجوانوں میں شامل تھے جو محض خواب نہیں دیکھتے بلکہ اپنے خطے کے مستقبل کے لیے فکری جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں وطن سے محبت اور معاشرتی انصاف کی تڑپ نمایاں رہتی تھی۔ وہ گلگت بلتستان کے مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے اور ایک بہتر سماج کا خواب دیکھتے تھے۔ کم وقت میں ہی وہ گلگت بلتستان کے نمایاں نوجوان لکھاریوں میں شمار ہونے لگے تھے۔
کریم شاہ نزاری سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ان کے والد میرے پھوپی زاد بھائی ہیں، مگر زندگی کی مصروفیات ہمیں قریب نہ لا سکے۔ 2010 میں قائداعظم یونیورسٹی میں ایک بار ان سے سامنا ہوا، مگر بات نہ ہو سکی۔ کچھ ہفتے قبل فیس بک پر شدید سیلابی صورتحال کے دوران ان کا ایک پیغام پڑھ کر بات ہوئی۔ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی جھلکتی تھی۔ دل میں تھا کہ یہ تعلق اب مضبوط ہوگا مگر قدرت نے انہیں وقت سے پہلے ہم سے چھین لیا۔
ان چاروں نوجوانوں میں ایک بات مشترک تھی۔ وطن سے محبت اور اپنے لوگوں کے لیے فکر مند ہونا۔ وہ صرف خواب دیکھنے والے نہیں تھے بلکہ عملی سوچ رکھنے والے تھے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ محض ذاتی سطح پر نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی اجتماعی دانش کا نقصان ہے۔
آج گلگت بلتستان ایسے ہی باشعور نوجوانوں کا محتاج ہے جو اپنی فکر اور کردار سے اس خطے کو بہتر مستقبل کی طرف لے جا سکیں۔ مگر افسوس کہ وقت نے ایک کے بعد ایک کو ہم سے چھین لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان کے خوابوں کو آگے بڑھا پائیں گے؟ یا یہ چراغ بھی ہماری بے حسی کے اندھیروں میں بجھ جائیں گے؟
اللہ تعالیٰ یاور عباس، جاوید ناجی، میثم کاظمی اور کریم شاہ نزاری کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں یہ ہمت دے کہ ہم ان کے خوابوں اور نظریات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ آمین.
انا للہ وانا الیہ راجعون
جواب دیں