Connect with us

کالم

متفقہ بیانیہ اور مذہبی رنگ

Published

on

Faheem Akhtar blogger from Gilgit-Baltistan and Chitral

جنوری کے 17 تاریخ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی لارجر بنچ نے گلگت بلتستان کے متعلق اپنا مشہور فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے اور گلگت بلتستان اپنے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کی روشنی میں استصواب روئے کے موقع پر بذریعہ ووٹ کرسکے گا ، تب تک گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کردئے جائیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں گوکہ نئی بات نہیں تھی مگر افواہوں اور افسانوی داستوں کی سخت الفاظ میں تردید تھی۔ حیلے بہانے بناکر قومی حقوق کا چیمپیئن بننے والوں کے تمام دلائل دریا ئے سندھ میں بہہ گئے تھے ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ قوم کے سامنے وہ تمام حضرات آکر معافی مانگ لیتے جن کے موقف کی سپریم کورٹ نے تردید کردی تھی ، کہ ماضی میں ایسے موقف نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو شش و پنج میں مبتلا کرکے رکھ دیا تھا ،لیکن ایسا کرنے کی بجائے پھر وہی حیلے بہانے اپنائے گئے کہ جی ہم نے مجبوراً یہ فیصلہ تسلیم کرلیا ہے ۔ ہمارا اب بھی مطالبہ وہی ہے ، ہم ریاست کو پریشان کرنا نہیں چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ 

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کے 20لاکھ عوام کویک زباں بناکر کوئی حکمت عملی بنائی جاتی ، ایسی حکمت عملی جس میں تعصب نہ ہو ، جس میں بغض ضد، جذباتیت اور فرقہ واریت کی بو بھی قریب تک نہ آسکے ۔ لیکن نادر لکھنوی کے بقول 

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازوں میرے آزمائے ہوئے ہیں

کے مصداق یکایک تقسیم ہوگئے۔ اس بار گلگت بلتستان کو متفقہ بیانیہ دینے کا بیڑہ عوامی ایکشن کمیٹی نے اٹھایا تھا جس نے اپوزیشن ممبران اور قوم پرست جماعتوں سے مل کر کمیٹی قائم کرکے 17فروری کو بذریعہ جلسہ متفقہ بیانیہ دینے کا اعلان کرلیا ۔ جلسے کی تاریخ قریب آتے ہی قوم پرست جماعتوں نے بائیکاٹ کا اعلان کردیا جس کی قیادت جی بی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عباس کررہے تھے۔ 

حقوق کی تلاش میں گمراہ عوام نے ایک مرتبہ پھر اتحاد چوک پر ڈیرے جمالئے ، جلسہ منعقد ہوا ، جلسہ ناکام نہیں تھا لیکن غیر معمولی بھی نہیں تھا،معزز مقررین کو شاید ایجنڈے کا معلوم ہی نہیں تھا اگر سادہ الفاظ میں جلسے کا خلاصہ پیش کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام جلسے میں آئندہ ووٹ دیتے ہوئے ا حتیاط کرنے پر اتفاق کرلیا گیا۔یہ تھا وہ ایجنڈا جس پر سب نے اپنی تقاریر میں ’فوکس ‘ کیا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے گلگت بلتستان کی حیثیت پر بات کرتے ہوئے 90 فیصد لوگ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ انہیں ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی ہے اس کی صاف ستھری وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں سیاسی سرگرمیاں محدود رہی ہیں، جدوجہد کی مشق یہاں پر نہیں رہی ہے ۔ ریٹائرڈ اے سی مشتاق احمد نے تمام اہم مقررین سے قبل خطاب کیا اور حوالہ جات کے ساتھ تاریخی حقائق پیش کئے جو قانونی بیانیہ ہے لیکن اس بیانیہ کو ’متفقہ ‘ کا تحفظ حاصل نہیں ہوسکا کیونکہ کسی نے بھی اس پر اتفاق نہیں کیا ۔

یہ بھی دیکھیں:

گلگت بلتستان کے عوام کا اگر حقیقی بیانیے کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ مراعات کا مطالبہ اور ٹیکس چھوٹ ہے۔ یہ عوام ،جن کی قیادت ’قائدین ‘کے پاس ہے، اب قومی اسمبلی میں نمائندگی سے خوف کھاتی ہے کیونکہ وہ اس نمائندگی کی بنیاد پر لگنے والے ٹیکسز سے ڈرتے ہیں۔ وہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ چاہتے ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ سبسڈیز دی جارہی ہیں۔ بہرحال صاف ستھرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جلسہ ناکام بھی نہیں تھا غیر معمولی کامیاب بھی نہیں تھا لیکن متفقہ بیانیہ کا نعرہ ایک ڈھونگ تھا ۔

اشکومن میں طالبعلم دیدار حسین کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کیس میں محکمہ پولیس گلگت بلتستان نے انتہائی متحرک کردار ادا کیا ہے ، تمام نامزد ملزمان کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ گلگت بلتستان سے باہر بیٹھے لوگوں کو آج کل گلگت بلتستان کے معاملات پر بولنا آسان لگتا ہے کیونکہ یہاں کے زمینی حقائق اور لوگوں کے رویوں سے باخبر نہیں ہیں۔ طالبعلم دیدار حسین کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بلاشبہ درندگی کی بدترین مثال ہے لیکن اس سے قبل ایسا ہی واقعہ گلگت میں بھی پیش آیا تھا۔

دیدار حسین کے ورثاء کی جانب سے نامزدکردہ اور دوران تفتیش ملوث ہونے کا انکشاف پر تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا لیکن انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی سازش کی گئی ہے ۔بلاشبہ ظالموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے ، جب انسانیت سے بھی لوگ نیچے گر جائیں تو اس میں مذہبی شلٹر کی تلاش اورشناخت کرنا نادانی کی بات ہے ۔ طالبعلم دیدار حسین کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے رابطہ کمیٹی اشکومن نے احتجاجی جلسے کا اعلان کرلیا ، جس کے روح رواں اشکومن سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنماء ظفر محمد شادم خیل تھے جبکہ میر نوازمیر بھی اس معاملے میں انتہائی متحرک تھے، بقول حلقہ ممبر نواز خان ناجی اس جلسے کی بنیاد پر فورس کمانڈر نے نوٹس لیا تب تک حکومت کو خیال ہی نہیں آیا۔جلسے میں اہلسنت والجماعت کے مقامی خطیب نے اپنی رائے دی کہ اس معاملے میں دیت کی بنیاد پر صلح کرائی جائے ، جسے مقررین نے مسترد کرتے ہوئے سزا کا مطالبہ کیا.

دونوں طرف کے مقررین کی زاتی رائے تھی، بس معاملے کو مذہبی رنگ دیدیا گیا، یہاں تک کہ اتحاد بین المسلمین کے ایک نام نہاد داعی نے اس واقعہ کو وزیراعلیٰ جی بی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ حفیظ الرحمن کو احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مسلک کا مولوی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ ہے۔ دیدار حسین کے قتل کے بعد اگر سب سے زیادہ جس بات پر افسوس اور مذمت کیا جانا چاہئے وہ یہی ہے کہ اس واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر کیپٹن شفیع صاحب نے بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی مذمت کی لیکن معلوم نہیں کس زمرے میں ۔ یہ انتہادرجے کی گھٹیا معاشرتی سوچ ہے جہاں پر بدکاری جیسے بدترین افعال کو بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

قانون ساز اسمبلی کا 35 واں اجلاس کا پہلا روز اپنی نوعیت کے مطابق انوکھا اجلاس تھا۔ جس میں بغیر ایجنڈے کے اسمبلی اجلاس شروع کیا گیا ۔ 22اراکین پر مشتمل حکومتی بنچ سے صرف 7ممبرحاضر تھے، اسمبلی اجلاس دو مہینے کے بعد طلب کرلیا گیا تھا، اسمبلی اجلاس میں بھی دیدار واقعے پر بحث ہوئی ۔ 14 اراکین میں سے صرف غذر کے ممبران اسمبلی تھے جو دیدار حسین کی تعزیت کے لئے لواحقین کے پاس گئے تھے ۔

مذمت کرنے کے لئے سارے کھڑے ضرور تھے مگر نہ کسی کو وہاں جانے کی توفیق ہوئی تھی اور نہ ہی کسی کو اس کیس کے بارے میں معلومات تھیں،صوبائی وزیر قانون اورنگزیب نے کچھ حد تک معلومات فراہم کی لیکن بعد میں کہا کہ میں کل ہی اسلام آباد سے آیا ہوں ایک دن مہلت دی جائے تمام معلومات لیکر آؤں گا۔ اراکین اسمبلی کی معلومات کے لئے پیش خدمت ہے کہ دیدار حسین واقعہ میں 10 ملزمان کی نشاندہی ہوچکی ہے جن میں سے آخری مرکزی ملزم بروز پیر گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ان تمام ملزمان پر انسداد دہشتگردی ایکٹ لگایا گیا ہے ، انسداد دہشتگردی عدالت نے 10روزہ جسمانی ریمانڈ دیا ہے ۔ 23فروری کو تمام تفتیش مکمل کرکے دوبارہ پیش کئے جائیں گے۔

دونوں طرف کے مقررین کی زاتی رائے تھی، بس معاملے کو مذہبی رنگ دیدیا گیا، یہاں تک کہ اتحاد بین المسلمین کے ایک نام نہاد داعی نے اس واقعہ کو وزیراعلیٰ جی بی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ حفیظ الرحمن کو احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مسلک کا مولوی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ ہے۔ دیدار حسین کے قتل کے بعد اگر سب سے زیادہ جس بات پر افسوس اور مذمت کیا جانا چاہئے وہ یہی ہے کہ اس واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر کیپٹن شفیع صاحب نے بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی مذمت کی لیکن معلوم نہیں کس زمرے میں ۔ یہ انتہادرجے کی گھٹیا معاشرتی سوچ ہے جہاں پر بدکاری جیسے بدترین افعال کو بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

قانون ساز اسمبلی کا 35 واں اجلاس کا پہلا روز اپنی نوعیت کے مطابق انوکھا اجلاس تھا۔ جس میں بغیر ایجنڈے کے اسمبلی اجلاس شروع کیا گیا ۔ 22اراکین پر مشتمل حکومتی بنچ سے صرف 7ممبرحاضر تھے، اسمبلی اجلاس دو مہینے کے بعد طلب کرلیا گیا تھا، اسمبلی اجلاس میں بھی دیدار واقعے پر بحث ہوئی ۔ 14 اراکین میں سے صرف غذر کے ممبران اسمبلی تھے جو دیدار حسین کی تعزیت کے لئے لواحقین کے پاس گئے تھے ۔ مذمت کرنے کے لئے سارے کھڑے ضرور تھے مگر نہ کسی کو وہاں جانے کی توفیق ہوئی تھی اور نہ ہی کسی کو اس کیس کے بارے میں معلومات تھیں.

صوبائی وزیر قانون اورنگزیب نے کچھ حد تک معلومات فراہم کی لیکن بعد میں کہا کہ میں کل ہی اسلام آباد سے آیا ہوں ایک دن مہلت دی جائے تمام معلومات لیکر آؤں گا۔ اراکین اسمبلی کی معلومات کے لئے پیش خدمت ہے کہ دیدار حسین واقعہ میں 10 ملزمان کی نشاندہی ہوچکی ہے جن میں سے آخری مرکزی ملزم بروز پیر گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ان تمام ملزمان پر انسداد دہشتگردی ایکٹ لگایا گیا ہے ، انسداد دہشتگردی عدالت نے 10روزہ جسمانی ریمانڈ دیا ہے ۔ 23فروری کو تمام تفتیش مکمل کرکے دوبارہ پیش کئے جائیں گے۔

فہیم اختر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے میڈیا کمیونیکیشز میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد روزنامہ کے ٹو اور روزنامہ سماؐ اسلام آباد سے منسلک ہیں۔ ساتھ ہی وہ پاکستان فیڈرل کونسل برائے کالمسٹ جی بی کے صدر بھی ہیں۔

Advertisement
Click to comment

سماجی مسائل

سیکولر گلگت بلتستان وقت کی ضرورت

Published

on

میثم قاسمی

سب سے پہلے میں سیکولر کی تعریف کرنا چاہونگا – سیکولر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے عقائد پے پابند رہنا ،دوسرے کے عقائد کے خلاف بات نہ کرنا اور ریاست کے معاملات سے مذہب کا کوئی تعلق نہ ہونا – سیکولر کا مطلب لا دین ہونا ہرگز نہیں –

ہمیں سیکولر گلگت بلتستان چائیے جہاں شیعہ سنی اسماعیلی اپنی مرضی سے اپنے عقائد پے عمل پیرا بھی ہوں اور وہ دوسرے مسالک پہ اپنے عقائد بھی مسلط نہ کر سکیں –

ہمیں سوچنا ہوگا ہمیں کیسے توڑا گیا پہلے مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی ، پھر شین ،یشکن کَمِن کے نام سے آپس میں لڑایا گیا -ہماری زمینوں پہ خالصہ سرکار کے نام پہ قبضے کیے گئے -پرائیویٹائزیشن کے نام پے ہمارا وسائل پے حملہ ہوا –

کیا ہمارے انفراسٹرکچر پے توجہ دی گئی ، ہیلتھ کیئر کا نظام بدلا ، کوئی آکسیجن پلانٹ گلگت بلتستان میں لگا، ڈاکٹروں کے لیے کوئی ٹیچنگ ہسپتال بنا ، کوئی انجینرنگ کالج تعمیر ہوا ، انٹرنیٹ کی فراہمی میں جدت آئی؟ ملازمت کے لیے کوئی نظام دیا گیا ہو ؟ سی ایس ایس کا کوٹا مزید کم کر دیا گیا – بجلی و پانی کا بحران ختم ہوا؟

کیا ہماری مذہبی قیادت نے ہماری 70 سالہ سیاسی و قانونی اور سماجی محرومیوں پے کبھی کوئی مل کر بات کی کوئی قرارداد شیعہ سنی اسماعیلی نے مل کر علاقے کی ترقی کے لیے دی ہو ؟ کوئی مناظرہ کسی ترقیاتی پروجیکٹ پے ہوا ہو ؟ کیا شیعہ سنی قیادت نے مل کر یوتھ کے لیے کوئی ملازمت کا پلان دیا ، بنیادی حقوق پے کبھی مل کہ بات کی گئی ؟

ہمیں طبقاتی نظام نے جکڑ لیا اور اشرافیہ ہم پے قابض بھی اسی لیے رہی کیونکہ ہم نے اجتمائی حقوق اور مسائل پے کبھی بیٹھ کر بات ہی نہیں کی نہ ہمیں بات کرنے کا موقع دیا گیا -سیاست میں بھی ہم نے مساجد کا استعمال کیا تبھی مسلکی اناد بڑھا –

جو جیسا ہے جس مسلک سے بھی ہو ہمیں اس کے عقیدہ سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہے – عقائد کو انفرادی حد تک ہی رکھنا دانش مندی اور وقت کی ضرورت ہے ورنہ ماضی کی طرح گلگت بلتستان خون میں رنگتا رہے گا اور اشرافیہ ہم پہ مسلط رہے گی۔

Continue Reading

بلاگ

گلگت چترال روڈ

Published

on

سنہ 2000ء میں بننے والے اس سڑک کی حالت اب قابلِ رحم ہے اور قابلِ غور بھی ہے کبھی کہتے ہیں یہ سڑک ملک پاکستان کے سب بڑے پراجیکٹ سی پیک میں شامل ہے تو کبھی کہتے ہیں یہ تاجکستان سے پاکستان آنے والے روڈ کا حصہ ہے کبھی تو اس کے ٹینڈر بھی ہونے کی خبر بھی پھیلتی ہے تو کبھی افتتاح کے فیتے بھی کاٹے جاتے ہیں مگر حقیقت کا پتا نہیں۔

2010ء میں آنے والے سیلاب نے اس سڑک کو مکمل طور پر متاثر کیا کئی دنوں بعد سڑک ٹریفک کے لئے بحال ہو گیا مگر کئی جگہوں میں کھڈے ایسے رہ گئے اور بچی کثر کو بعد میں آنے والے زلزلے نے پورا کیا جس کے بعد گاڑیوں کے لئے بحال کیا مگر مکمل مرمت نہیں ہوئی۔ اسی سڑک میں سینکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں سیلاب “لینڈ سلائیڈنگ” ہو ہی جاتی ہے جب وقت ہوتا ہے اور اس سڑک پہ اتنے زیادہ موڑ ہیں جیسے کسی بچے نے سفید کاغذ پہ پینسل سے ٹیڑھی لکیریں کھینچی ہو اس رستے سے دن میں سینکڑوں پیسنجر گاڑیاں گزرتی ہیں۔

ایمرجنسی مریضوں کو وقت پہ ہسپتال پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے “کانڇی موڑ” علاوہ بھی کئی جگہے ہیں جہاں مٹی کے تودے اور بڑے پتھر کسی وقت گاڑی کے چلنے سے زمین میں جو وائبریشن ہوتی ہے اس سے گرے تو کوئی حادثہ ہو سکتا ہے اور یہ وہی سڑک ہے جسے چترال روڈ کہا جاتا ہے دنیا کا بلند ترین پولوگراونڈ گراؤنڈ اور میلہ شندور کے لئے یہاں سے گزرنا ہوتا ہے نہایت خوبصورت پھنڈر ویلی بھی یہاں واقع ہے کارگل مارکہ میں نشان حیدر لینے والے گلگت بلتستان کا بہار بیٹا لالک جان کے مزار کے لئے بھی یہاں کے گزر کے جانا ہے۔

حالیہ دنوں ہونے والے سنو فیسٹیول ” خھلتی جھیل” جو کہ سردیوں میں اس جھیل پہ برف جم جاتا ہے اور اپنی خوبصورتی کی طرف مائل کرتی ہے مگر کوئی آئے تو کیسے اس سڑک کے خستہ حال کی وجہ سے ٹورسٹ کا رخ یہاں کی طرف کم ہے اگر یہ ہائی وے بن جاتا ہے تو کئی سیاحوں کا رخ اس طرف ہوگا اور مقامی لوگوں کی زندگیاں بھی آسان ہوں گی کسی نے کہا ہے علاقے کی ترقی میں اچھے سڑک کا کردار ہوتا ہے۔

ضلع غذر ابادی کے لہاظ سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور ضلع غذر کو شہیدوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ضلع غذر اک خوبصورت ضلع یہاں سیاح آتے تو ہیں مگر کم اس کی وجہ یہی سڑک اک مہینہ پہلے بھی افتتاح کیا مگر اب تک کوئی پتا نہیں۔

Continue Reading

سماجی مسائل

ہم نے اپنے گھروں کو ڈوبتے دیکھا

Published

on

لینڈ سلائڈنگ کا مخصوص وقت ہوتا ہے جو کہ اپریل سے ستمبر کے پہلے ہفتے تک رہتا ہے جس میں آسمانی بجلی کی گرج چمک اور تیز بارش کے باعث پہاڑوں پہ گری آسمانی بجلی اپنے سامنے آنے والی ہر چیز درخت پتھر مٹی کھیت گھر جانور انسان کو اپنے ساتھ ملا کے انتہائی خوفناک شکل میں دریا تک پہنچتی ہے۔ اس کی وجہ سے دور تک زلزلے کی جیسی ڈراؤنی آواز آتی ہیں اور سننے والا ہر شخص کانپے لگتا ہے۔

2 ستمبر کی شام ہمارے محلے میں اندزہ ہونے لگا کہ سیلاب کا خطرہ ہے کیونکہ پچھلے 48 گھنٹوں سے بارش بلکل رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سب لوگ خوف اور پریشانی میں تھے۔بارش تیز سے تیز ہو رہی تھی۔ میں گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پیٹرول پمپ کے ساتھ جو کہ پہاڑ سے آنے والا بارش کے پانی کا راستہ ہے وہاں بار بار جا کر معائنہ کرتا رہا۔ رات کے تقریبا ساڑھے بارہ بجے مجھے اندازہ ہوگیا کہ پانی کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے۔محلے کے تقریبا سارے ہی لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔

دو دوستوں کے علاوہ میرا کسی کے ساتھ رابطہ نہ ہو سکا پھر میں گھر میں اپنے کمرے میں لیٹا گھر کی چھت پہ بارش کے تیز رفتار قطروں نے سونے نہ دیا۔ کچھ ٹائم بعد میں موبائل میں نے ٹائم دیکھا تو رات کے 03:13 بجھ گئے تھے۔ موبائل سرہانے کے ساتھ رکھا ہی تھا کہ کال آئی۔ کال اٹھایا تو ایک دوست نے کہا لہ جلدی سے اپنے گھر والوں کع باہر نکالو سلائڈنگ ہورہی ہے اور سیلاب کا رخ ہمارے محلے کی جانب ہے۔

اس وقت کا خوف اور ڈر شاید ہی بیان نہیں کرسکوں۔ جلدی سے اٹھا، سارے گھر والوں کو جگایا اور بڑی مشکل سے صرف ایک دوست کو کال لگی جسے میں نے خبردار کیا۔ تھوڑی دیر بعد نیٹ ورک نے بھی جواب دے دیا اور کسی کو کال نہ کر سکا۔ میں گھر والوں کو باہر نکالنے دروازے پر نکلا تو دیکھا کہ سیلابی پانی دروازے تک پہنچ چکا ہے۔

گھر والوں بمشکل باہر نکالنے لگا اور دادی اماں جن کی عمر تقریباً 120 برس ہے انھیں لینے آندھرے میں گھر دوبارہ داخل ہوا تو محلے کے ہر طرف سے چیخ پکار کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔

باہر کافی لوگ ننگے پاوں تھے اور زیادہ تر لوگ نیند کی حالت میں تھے۔ سردی بھی تھی اور بارش تیز سے تیز ہو رہی تھی جبکہ سیلابی پانی اور لوگوں کی آوازیں دور تک گھونج رہی تھیں۔ یہ ایسا قیامت خیز منظر تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گھر والوں کو محلے سے باہر محفوظ مقام پر نکالنے کے بعد کچھ اہم اشیاء لینے جب دوبارہ گھر کی طرف جانا چاہا تو دیکھا کہ سارا محلہ پانی میں ڈوب چکا ہے اور کسی صورت گھر پہنچنا ممکن نہیں۔ کچھ وقت انتظار کے بعد آخر بڑی مشکلوں سے اپنے چھوٹے بھائی اور کچھ دوست سمیت ایک دوسروں کے ہاتھ پکڑھ کر گرتے ڈوبتے ہوئے گھر تک پہنچے۔ گھر کے سارے کمروں میں پانی بھر چکا تھا۔ ایک کھڑکی کی جالی پھاڑ کر اندر داخل ہوئے اور اپنے ضروری دستاویزات، کاغذات اور نقدی رقم نکالنے میں کامیان ہوئے۔ واپسی پر دیکھا کہ پانی کا بہاؤ اور زیادہ ہو رہا ہے اور ساتھ ہی بارش بھی تیز ہو چکی تھی۔ رستے میں ایک اور دوست سے بات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے گھر کی دیواریں گر چکی ہیں اور ہم بمشکل اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلے ہیں۔

صبح ہوئی تو پتا چلا محلے کے 64 گھرانے سیلاب کی زد میں میں آچکے ہیں۔ محلے کے کم و بیش سارے رہائشی بےگھر ہوچکے تھے۔ بعض نے اپنے دوست رشتہ داروں کے گھر اور بعض نے ہوٹلوں میں 3 دن گزارے اور حالات جب بہتر ہوئے تو اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ محلے کی کوئی گلی سڑک مکان سلامت نہیں رہا تھا۔ حکومت کی طرف سے کوئی امدادی کاروائی نہ ہونے کے بعد محلے والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مرمت کا کام شروع کیا اور تاحال جاری ہے۔

Continue Reading

مقبول تریں