سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے۔ کہ مملکت پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ وہ گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں شامل کرکے اس سے پاکستان کا حصہ بنائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم پاکستان کے آئین میں شامل نہیں اور نہ شامل ہو سکتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کے اندر آئینی حقوق کی تحریکیں دم توڑ گئی۔
اب دوسری سادہ سی بات۔ پھر حقوق کس طرز کے؟ دیکھنا یہ ہوگا کہ اتنا دباو، اور خود وزیراعظم پاکستان کے اعلان کے باوجود گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں بن سکا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہے اس علاقے کا متنازعہ ہونا۔ اور اس متنازعہ حیثیت کا عالمی سطح پر تسلیم ہونا۔ اسی لئے پاکستان ہندوستان یا پھر چائینہ اس کی عالمی حیثیت کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہمیں چاہئے کیا؟ نہ ہم مکمل طور پر پاکستانی آئین میں شامل ہیں اور نہ ہم مکمل طور پر کسی اور ملک کے آئینی شہری ہیں۔ تو پھر ہم ہیں کون اور ہمیں چاہئے کیا؟ ہماری شناخت اور ہمارا تحفظ کیا ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ ہمیں آئینی تحفظ حاصل ہو اور دوسرے شہریوں کی طرح ہمارے منتخب نمائندے ہی ہمارے لئے قانون سازی کرے؟
بالاورستان نیشنل فرنٹ کے سپریم لیڈر نواز خان ناجی صاحب کا کہنا ہے کہ لداخ سے لیکر چترال تک اس خطے میں ایک قوم بستی ہے۔ اور اُس نے اِس قوم کو بالاور قوم کا نام دیا۔ اسی قوم کی قانونی لڑائی لڑنے کے لئے ناجی صاحب نے بالاورستان نیشنل فرنٹ بنائی اور ثابت قدمی کے ساتھ آج تک سیدھی اور صاف بات کہتے آرہے ہیں۔ کبھی حالات اس تحریک کے حق میں رہے کبھی نہیں۔
لیکن اس تحریک نے کبھی بھی مسلح جدوجہد کو پسند نہیں کیا اور نہ کبھی اس کے حق میں رہے۔ پھر دوسری چھوٹی چھوٹی تحریکیں بھی ہیں جو گلگت بلتستان کی اس متنازعہ حیثیت کے لئے کام کررہی ہیں۔ جہاں وہ اپنے لوگوں کو مشکل میں ڈالے بغیر ان کی رہنمائی کرتی آرہی ہیں۔ آج قوم کی ترقی یافتہ تعریف میں ایک خطے میں بسنے والے مختلف رنگ نسل اور مختلف زبانوں کے حامل لوگ جو ایک جگہ آباد ہوں جن کے مفادات مشترک ہوں وہ ایک قوم کہلاتے ہے۔ اور وہی اپنی شناخت کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کی مشکلات اور آسانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان کے اندر بسنے والی اس قوم کو کیا آخر کیا چاہئے؟
سب سے پہلے تو شناخت کا نہ ہونا ہی سب سے بڑا مسلہ ہے۔ یہاں پہ بسنے والے لوگ ایک قوم ہیں اور اس سے دنیائے عالم کے سامنے منوانا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ ہماری شناخت اور ہماری تحفظ آئینی اور قانونی ہونا ضروری ہے۔ ہماری عدلیہ آزاد ہو اور کسی آرڈر کے زیر تسلط نہ ہو۔ یہاں کے لوگوں کو اپنے منتخب نمائندوں کے زریعے بغیر کسی دباو کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہئے۔ یہاں کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات اُن کے گھر پہ میسر ہونی چاہئے۔
یہ بالکل قابل قبول نہیں کہ ایک ملک کے کونے میں کوئی فیصلہ ہو اور من و عن اس کو یہاں کے عوام پہ مسلط کر دیا جائے۔ اور پھر اُن کو اِن فیصلوں پر من و عن عمل کرنے کا دباو رکھا جائے۔ گلگت بلتستان کے ایک نام، ایک شناخت ایک پہچان کو حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑا مسلہ یو این کی قراردادیں ہیں۔ ان قراردادوں کے زریعے جس حل کی نشاندہی کی گئی اور جس سے پاکستان اور ہندوستان دونوں عمل کرنے کے پابند ہیں انہی قرادادوں کے تحت ہی اس خطے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان اس کو اپنا حصہ نہیں بنا سکا تو اس کی وجہ بھی یہی قراردادیں ہیں۔ انہی قراردادوں کو سامنے رکھا جائے تو گلگت بلتستان کے اندر صوبہ بناو تحریکیں اُبھر رہی تھی وہ سب ڈھونگ اور ناکام تھی جن کا ابھی مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔
اس کے علاوہ کشمیر کی قیادت نے بھی ایسی تحریکوں کی کھل کر مخالفت کی۔ بجائے یہاں کے لوگ اپنی تحریکوں پہ نظر ثانی کرتے وہ کشمیر کے عوام کے ساتھ دشمنی کی حد تک چلے گئے۔ یہاں کی عوام یہ سوچے بغیر کہ پاکستان اور ہندوستان کیا چاہتے ہیں؟ کشمیری قیادت کا کیا موقف ہے؟
اِس بات پہ زیادہ ذور دیتے کہ یونائیٹیڈ نیشن کیا کہتا ہے۔ عالمی سطح پہ گلگت بلتستان کی حیثیت کیا ہے؟ تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ 72 سال ایسی ناکام تحریکوں پہ ضائع کرنے کے بجائے، متنازعہ حیثیت کی اصل روح کے مطابق تحریک کا آغاز کرتے تو شاید آج تک ہم گلگت بلتستان سمیت پورے کشمیر کے حقوق کی قیادت کررہے ہوتے۔ آج بھی وقت ختم نہیں ہوا ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسل کو ایک خود مختار اور آزاد ماحول میں زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے۔
ہمیں آج اپنی تمام تحریکوں کو سمیٹ کر ایک مظبوط تحریک کا آغاز کرنا چاہئے جو عالمی قوانین کے عین مطابق جو آزاد ہندوستان اور آزاد پاکستان کی اصلی قیادت کو بھی قابل قبول ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم آزاد پاکستان اور آزاد ہندوستان کے درمیان ڈوبتے گلگت بلتستان کو جلدی بھنور سے باہر نکالنا چاہئے۔ ورنہ مستقبل میں ہماری کوئی نشانی باقی نہیں رہے گی۔