ٹھہریے کہانی کو 20 رمضان کے بعد سے شروع کرتے ہیں جب حملہ آور سیاح یہاں نہیں پہنچے تھے۔ میری بیوی اور بہن بچوں سمیت پسو میں ہوٹل کے صحن میں بیٹھی رہتیں۔ ہوٹل کے عین سامنے پسو کے پندرہ بیس نوجوان بیٹھے رہتے کیونکہ یہ جگہ پسو کی بیٹھک سمجھ لیں۔ ان نوجوانوں میں کسی ایک نے بھی کبھی ان خواتین کی جانب اچٹتی نظر بھی نہیں ڈالی۔ ہوٹل میں مزدور کام کر رہے ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے ہے۔ اسی ہوٹل کے کچن میں وہ بھی کھانا پکاتے رہے اور یہ خواتین بھی کھانا پکاتی رہیں لیکن مزدورانتہائی شریف النفس اور احترام کرنے والے۔۔۔
عید کے تیسرے دن میری بیوی اور بہن بے فکری سے ایک مقامی خاتون کے ساتھ ہوٹل کے باہرسڑک پرکھڑی تھیں۔ حملہ آور سیاح آ چکے تھے۔ ہر کوئی بریک لگا کر جائزہ لیتا اور معنی خیز مسکراہٹ سے نوازتا۔ ایسے میں چوتھی یا پانچویں گاڑی تھی جس نے دورسے بریک لگائی۔ ان میں بیٹھے ایک شخص نے موبائل کیمرہ نکالا اور عین خواتین کے سامنے ان کی ویڈیو بناتا اور قہقہہ لگاتا نکل گیا۔ مقامی خاتون کی گاڑی آ گئی وہ نکل گئیں اور یہ خواتین ہوٹل کے اندر آ گئیں۔ اس واقعہ سے ایک اثر یہ ہوا کہ ان خواتین کو یاد آ گیا کہ یہ کہاں سے آئیں تھیں۔ گلگت بلتستان میں رہ رہ کر کچھ زیادہ بے فکری ہو گئی تھیں۔
گاڑیوں کو یہاں کی صاف و شفاف سڑک پر دوڑانے کو اپنا ازلی حق سمجھتی یہ مخلوق بھول جاتی ہے کہ یہاں جگہ جگہ پر مقامی آبادیاں ہیں۔ بچے کھیلتے ہوئے اچانک کہیں سے نمودار ہو جاتے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ بھی فراموش کر دیا جاتا ہے کہ صاف و شفاف سڑک پہاڑوں میں ہے جہاں ڈرائیونگ کی خاص مہارت درکار ہوتی ہے۔ کہاں اوور ٹیک کرنا ہے کہاں نہیں اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔
مقامی پولیس ، رضاکار اور جی بی سکاؤٹس بے حد تعریف کے مستحق ہیں جو دن رات ٹریفک کے انتظام میں مصروف ہیں لیکن حملہ آور سیاحوں کا بات نہ ماننا اور تضحیک آمیز رویہ کلیجہ کاٹ کے رکھ دیتا ہے۔ سکاؤٹس اورپولیس مکمل طور پر اس کوشش میں ہے کہ مہانوں کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو لیکن مہمان بدتمیزی کرنے سے باز نہیں آتے۔ مہمانوں کا رویہ بڑی حد تک ایسا ہے جیسے فاتح افواج کا مفتوح علاقوں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک خاص نفسیاتی مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں جو انہوں نے درسی کتابوں سے کشید کیا ہے۔۔۔
ہم ہیں۔۔ ازل سے ہم ہیں۔۔ ابد تک ہم ہیں۔۔
ہمارے سوا سب کو قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔۔
ہمارے ایک جوس کے ڈبے کو سڑک پر پھینکنے سے کچھ نہیں ہوتا لیکن باقی لوگوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔۔
جب شیشہ دیکھتے ہیں تو ایک شاہ رخ خان نظر آتا ہے۔۔ پہاڑوں میں رہنے والی لڑکیاں نہ جانے کب سے ان کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔
پھلوں سے لدے درخت ہمارے ہیں۔ آدھا کھانا اور آدھا ضائع کرنا ہمارا حق ہے۔
جب یہ مائنڈ سیٹ باہر کسی ملک میں جاتا ہے تو ان کا ‘مائنڈ’ ٹھکانے آجاتا ہے کیونکہ وہاں قانون سخت ہے۔ ان کو پہلی دفعہ اپنی اوقات کو سمجھنے سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں انتظامیہ بھی مہمانوں کے حوالے سے حساس دل رکھتی ہے جس سے یہ حملہ آورسیاح انتہائی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔
کل کریم آباد میں عجب منظر دیکھا۔ گاڑیوں کی چھتوں پر بڑے بڑے سپیکرز نصب ہیں اور پورے علاقے کو اپنی پسند کے گانوں سے نوازا جا رہا ہے۔ ایک شرابی جھومتا جھامتا آیا۔ میں اس وقت نظیم کے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔ نشے میں چور اس شرابی سے ایک فقرہ مکمل کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ کہنے لگا۔۔ یارا یہ ہنزہ کا ہوٹل بڑا خوبصورت ہے یہ ہوٹل ہے؟ میں نے کہا یہ ہوٹل نہیں گھر ہے۔۔ پھر کہنے لگا نہیں نہیں یہ ہوٹل ہے، ہم اندر آئے گا۔۔ میں نے کہا پولیس کو بلاؤں؟۔۔ کہنے لگا، پولیس کی ماں کی۔۔۔۔
اتنے میں اس کے ساتھ ایک اور شخص اس کو پکڑ کر دوبارہ گاڑی میں بٹھانے لے گیا۔
ابھی کریم آباد سے پسو آ رہا تھا۔ راستے میں کھڑے دو پٹھان بھائیوں کو لفٹ دی۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ ان کی گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے۔ ان کا ایک ساتھی تشویش ناک حالت میں ہے۔ بتانے لگا کہ وہ خنجراب جا رہے تھے اور اپنی لائن میں ڈرائیو کر رہے تھے۔ اچانک مخالف سمت میں ایک گاڑی ان کی لائن میں آئی اور ان کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ جب دوسری گاڑی میں دیکھا تو گاڑی والے حضرات نشے میں دھت تھے اور پچھلی سیٹ پر شراب کی کچھ خالی اور کچھ بھری بوتلیں پڑی تھیں۔ باریش پٹھان بھائی پوچھنے لگے ہمیں انصاف کیسے ملے گا؟ میں نے جواب دیا کہ اس ملک میں انصاف چاہیے تو بہتر ہے کسی پہاڑ کے دور دراز نالے میں شفٹ ہو جاؤ۔ بیک ویو مرر سے دیکھا تو ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ جواب سے کچھ خاص مطمئن نہیں تھے۔ لیکن میری اپنی مجبوری۔۔ اس ملک میں چالیس برس گزارنے کے بعد مجھے یہی حل سمجھ میں آیا ہے۔
میں اور نظیم گلمت کے پاس تھے جب مخالف سمت سے ایک کیری ڈبے میں سے ڈیڑھ لٹر کی خالی بوتل اچھلی اور سڑک پر آ گری۔ میں نے کیری ڈبے والے کو اشارہ کیا لیکن وہ رکا نہیں۔ میں نے گاڑی روکی اور خالی بوتل کو گاڑی میں پھینکا جو کچرا دان بن چکی ہے۔ دور سے کیری ڈبے والے نے ہاتھ ہلایا۔ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے میں نے یہی سمجھا کہ معذرت ہی کر رہا ہو گا۔ لیکن یہاں کون کس کس کو سمجھائے؟ ایک دوحضرات سے اس موضوع پر بات بھی ہوئی کہ گلگت بلتستان میں آپ کو کہیں کوڑا کرکٹ نظر آیا؟ کہیں سیورج کا پانی نظر آیا؟ جب یہ سب کچھ اتنا صاف ہے تو آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں کہ اس صفائی کے پیچھے کسی آسمانی مخلوق کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ لوگ خود ہی صفائی کرتے ہیں۔ آپ کس دل کے ساتھ اپنی گاڑی کا گند اعتماد کے ساتھ باہر پھینک دیتے ہیں۔
گاڑی میں ایک مقامی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ اس مقامی کو لفٹ دی تھی اس نے ششکٹ تک جانا تھا۔ اس کی گود میں ایک سات آٹھ سالہ بچی تھی۔ اس بچی نے لولی پاپ کا ریپر گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ اس پر وہ صاحب غصے میں آگئے اور بچی کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے ، “یہ کراچی نہیں ہے ادھر آیا کرو تو انسان بن کے رہا کرو” پھر مجھے دیکھ کر معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگے، معاف کیجئے گا یہ میری نواسی ہے اور یہ لوگ کراچی میں رہتے ہیں۔
مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ اس سب ہوئے پر خوش ہو جاؤں کہ گلگت بلتستان کتنا اچھا ہے اور لوگ کتنے پیارے ہیں یا لاہور کراچی پشاور پنڈی وغیرہ کے ہم وطنوں کے رویوں پر ماتم کروں۔
ایک بات ضرور ذہن نشین کر لیجئے کہ جب میں حملہ آور سیاح کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں تو وہ ایک خاص پیرائے میں اور مخصوص ٹولے کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ سیاحت کے حوالے سے پاکستان میں ان گنت سیاح ایسے ہیں جو انتہائی ذمہ دار ہیں۔ جو پہاڑوں ، بچوں ، خواتین، درختوں اور غشپ کا احترام کرتے ہیں۔ ایسے تمام ہم وطن سیاحوں کو سلام۔
(کالم کی دم۔۔۔۔ وقت آ گیا ہے کہ گلگت بلتستان سکاؤٹس، پولیس، اور مقامی سکاؤٹس کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے)