گلگت شہر میں یاسین سے تعلق رکھنے والے طالب علم راجہ کاشان کا قتل انتہائی افسوسناک اور باعثِ تشویش ہے۔ یہ محض ایک نوجوان کی جان کا ضیاع نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے زوال کی علامت ہے۔ یہ واقعہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آخر ہمارا پیارا گلگت، جو کبھی محبت، امن اور بھائی چارے کا گہوارہ تھا، آج جرائم، بدامنی اور دہشت کا گڑھ کیوں بنتا جا رہا ہے؟
یہ گلگت بلتستان کا دارالخلافہ ہے۔ سہولیات اگرچہ محدود ہیں، لیکن دیگر اضلاع کے مقابلے میں یہاں تعلیم، روزگار اور علاج کی نسبتاً بہتر صورت حال ہے۔ اسی لئے دور دراز وادیوں کے لوگ اپنی امیدیں لے کر اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس، سہولتوں کے بجائے یہ شہر آج پریشانیوں، مشکلات اور اندیشوں کا دوسرا نام بنتا جا رہا ہے۔ رہائش، آٹا، بجلی اور روزگار کی کمی تو پہلے ہی تھی، اب تو جان و مال کا تحفظ بھی خواب بنتا جا رہا ہے۔
جرائم پیشہ عناصر سادہ لوح لوگوں کو نشانہ بنا کر کبھی چوریاں کرتے ہیں، کبھی ڈکیتیاں، اور کبھی نہتے طلبہ کی عزت اور جان تک چھین لیتے ہیں۔ یاسین کے عوام ابھی اپنے پیارے طالب علم مسلم خان کی المناک موت کو بھول نہ پائے تھے کہ آج کاشان کے قتل نے زخم پھر سے تازہ کر دیے۔ سوال یہ ہے کہ کل کس کا بیٹا، کس کا بھائی یا کس کا دوست ان درندوں کا شکار ہوگا؟
المیہ یہ ہے کہ بطور قوم ہم ہر برائی کا ملبہ حکومت یا اداروں پر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف اداروں کی ناکامی نہیں، بلکہ ہمارے اپنے معاشرتی رویوں کا نتیجہ ہے۔ والدین کی غفلت، اساتذہ کی خاموشی، سماج کی بے حسی اور نوجوانوں کی لاپرواہی، سب نے مل کر اس بگاڑ کو جنم دیا ہے۔
آج کے نوجوانوں کی اکثریت اپنی عزت و آبرو اور مستقبل کی فکر کے بجائے موبائل فون، موٹر سائیکل، برانڈڈ کپڑوں، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، ہوٹلوں کی رنگین محفلوں اور ٹک ٹاک کو ہی کامیابی سمجھتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی روش وقت آنے پر زوال کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان سب کے پیچھے منشیات کا زہر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گلگت کے تعلیمی ادارے، ہوسٹلز اور بازار منشیات فروشوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔
خاص طور پر "آئس” جیسی خطرناک لعنت نے نوجوان نسل کی رگوں میں اندھیرے بھر دیے ہیں۔ آج شہر میں ہونے والی ڈکیتیاں، بدمعاشیاں اور قتل و غارتگری کی بڑی وجہ یہی آئس اور دیگر نشے کے عادی نوجوان ہیں۔ جب لت شدید ہو جاتی ہے تو یہ لوگ بازاروں اور گھروں پر ڈاکے ڈالنے سے لے کر دوستوں کو دھوکہ دینے اور راہ چلتے معصوم شہریوں پر حملے کرنے تک سب کچھ کر گزرتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ والدین خون پسینے کی کمائی سے اپنے بچوں کو شہروں میں پڑھنے بھیجتے ہیں، لیکن اکثر یہ نوجوان تعلیم سے سنورنے کے بجائے بگڑ کر واپس آتے ہیں۔ یہ بگاڑ صرف لڑکوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ لڑکیاں بھی جدیدیت کی دوڑ میں تمام حدود پار کر رہی ہیں، جس کا تذکرہ زبان زدِ عام ہے۔
لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ والدین تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی بھرپور توجہ دیں۔ بچوں کے حرکات و سکنات، دوستوں،
اخراجات اور معمولات پر گہری نظر رکھیں۔
حکومت کو چاہئے کہ منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف سخت اور بے.
رحم کارروائی کرے۔ تعلیمی اداروں میں کاؤنسلنگ سینٹرز قائم ہوں، والدین کے لئے آگاہی پروگرامز شروع کیے جائیں۔
عدلیہ سے درخواست ہے کہ وہ جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف بلاامتیاز اور سخت ترین قانونی کارروائی عمل میں لائیں تاکہ وہ معاشرے کے لئے عبرت بنیں۔ یوں سماج کے ہر فرد کو یہ باور کرایا جائے کہ جرم کے خلاف خاموشی دراصل جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔