Site icon جی بی اردو

ہم نے اپنے گھروں کو ڈوبتے دیکھا

لینڈ سلائڈنگ کا مخصوص وقت ہوتا ہے جو کہ اپریل سے ستمبر کے پہلے ہفتے تک رہتا ہے جس میں آسمانی بجلی کی گرج چمک اور تیز بارش کے باعث پہاڑوں پہ گری آسمانی بجلی اپنے سامنے آنے والی ہر چیز درخت پتھر مٹی کھیت گھر جانور انسان کو اپنے ساتھ ملا کے انتہائی خوفناک شکل میں دریا تک پہنچتی ہے۔ اس کی وجہ سے دور تک زلزلے کی جیسی ڈراؤنی آواز آتی ہیں اور سننے والا ہر شخص کانپے لگتا ہے۔

2 ستمبر کی شام ہمارے محلے میں اندزہ ہونے لگا کہ سیلاب کا خطرہ ہے کیونکہ پچھلے 48 گھنٹوں سے بارش بلکل رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سب لوگ خوف اور پریشانی میں تھے۔بارش تیز سے تیز ہو رہی تھی۔ میں گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پیٹرول پمپ کے ساتھ جو کہ پہاڑ سے آنے والا بارش کے پانی کا راستہ ہے وہاں بار بار جا کر معائنہ کرتا رہا۔ رات کے تقریبا ساڑھے بارہ بجے مجھے اندازہ ہوگیا کہ پانی کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے۔محلے کے تقریبا سارے ہی لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔

دو دوستوں کے علاوہ میرا کسی کے ساتھ رابطہ نہ ہو سکا پھر میں گھر میں اپنے کمرے میں لیٹا گھر کی چھت پہ بارش کے تیز رفتار قطروں نے سونے نہ دیا۔ کچھ ٹائم بعد میں موبائل میں نے ٹائم دیکھا تو رات کے 03:13 بجھ گئے تھے۔ موبائل سرہانے کے ساتھ رکھا ہی تھا کہ کال آئی۔ کال اٹھایا تو ایک دوست نے کہا لہ جلدی سے اپنے گھر والوں کع باہر نکالو سلائڈنگ ہورہی ہے اور سیلاب کا رخ ہمارے محلے کی جانب ہے۔

اس وقت کا خوف اور ڈر شاید ہی بیان نہیں کرسکوں۔ جلدی سے اٹھا، سارے گھر والوں کو جگایا اور بڑی مشکل سے صرف ایک دوست کو کال لگی جسے میں نے خبردار کیا۔ تھوڑی دیر بعد نیٹ ورک نے بھی جواب دے دیا اور کسی کو کال نہ کر سکا۔ میں گھر والوں کو باہر نکالنے دروازے پر نکلا تو دیکھا کہ سیلابی پانی دروازے تک پہنچ چکا ہے۔

گھر والوں بمشکل باہر نکالنے لگا اور دادی اماں جن کی عمر تقریباً 120 برس ہے انھیں لینے آندھرے میں گھر دوبارہ داخل ہوا تو محلے کے ہر طرف سے چیخ پکار کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔

باہر کافی لوگ ننگے پاوں تھے اور زیادہ تر لوگ نیند کی حالت میں تھے۔ سردی بھی تھی اور بارش تیز سے تیز ہو رہی تھی جبکہ سیلابی پانی اور لوگوں کی آوازیں دور تک گھونج رہی تھیں۔ یہ ایسا قیامت خیز منظر تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گھر والوں کو محلے سے باہر محفوظ مقام پر نکالنے کے بعد کچھ اہم اشیاء لینے جب دوبارہ گھر کی طرف جانا چاہا تو دیکھا کہ سارا محلہ پانی میں ڈوب چکا ہے اور کسی صورت گھر پہنچنا ممکن نہیں۔ کچھ وقت انتظار کے بعد آخر بڑی مشکلوں سے اپنے چھوٹے بھائی اور کچھ دوست سمیت ایک دوسروں کے ہاتھ پکڑھ کر گرتے ڈوبتے ہوئے گھر تک پہنچے۔ گھر کے سارے کمروں میں پانی بھر چکا تھا۔ ایک کھڑکی کی جالی پھاڑ کر اندر داخل ہوئے اور اپنے ضروری دستاویزات، کاغذات اور نقدی رقم نکالنے میں کامیان ہوئے۔ واپسی پر دیکھا کہ پانی کا بہاؤ اور زیادہ ہو رہا ہے اور ساتھ ہی بارش بھی تیز ہو چکی تھی۔ رستے میں ایک اور دوست سے بات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے گھر کی دیواریں گر چکی ہیں اور ہم بمشکل اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلے ہیں۔

صبح ہوئی تو پتا چلا محلے کے 64 گھرانے سیلاب کی زد میں میں آچکے ہیں۔ محلے کے کم و بیش سارے رہائشی بےگھر ہوچکے تھے۔ بعض نے اپنے دوست رشتہ داروں کے گھر اور بعض نے ہوٹلوں میں 3 دن گزارے اور حالات جب بہتر ہوئے تو اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ محلے کی کوئی گلی سڑک مکان سلامت نہیں رہا تھا۔ حکومت کی طرف سے کوئی امدادی کاروائی نہ ہونے کے بعد محلے والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مرمت کا کام شروع کیا اور تاحال جاری ہے۔

Exit mobile version