Site icon جی بی اردو

دیامر میں ذاتی دشمنی اور علماء کا کردار

Altaaf Yash - Writer Gilgit-Baltistan

کہتے ہیں کسی زمانے میں کوئی انگریز دیامر کے کسی علاقے میں آیا تو وہاں اس نے دیکھا چھوٹے بڑے سب کے ہاتھ میں اسلہ ہے تب اس کے پوچھنے پہ مقامی لوگوں نے بتایا یہاں پہ رواج ایسا ہے اور لوگ ذاتی دشمنی کی وجہ سے اسلہ رکھتے ہیں اور باری باری ایک دوسروں کو مارتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہتا ہے تو انگریز نے پوچھا پھر؟ تو بتایا گیا آخر میں دونوں خاندان دونوں قبیلے صلح کرتے ہیں اور دشمنی کو ختم کرتے ہیں تو اس انگریز نے بتایا یہ صلح آخر میں کرنے کے بجائے پہلے ہی کیوں نہیں کرتے اتنی قیمتی جانیں ضائع کرکے اور مالی نقصان کے بعد کیوں؟؟؟

اگر سوچا جائے تو انگریز کی اس بات میں بہت دم ہے دیامر والو!!! کب تک چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ایک دوسروں کو قتل کرو گے ایک طرف تو سو روپے کی کلاشنکوف کی اک گولی جاتی ہے لیکن دوسری طرف اک انسان کی قیمتی جان جاتی ہے کسی گھر سے جنازہ اٹھتا ہے پھر اپنی باری کا انتظار کرو تو آپ کے گھر میں بھی ایسا ماتم ہوسکتا ہے آخر یہ کب تک چلے گا؟

دیامر میں پیسے زیادہ ہونے کی وجہ سے سب کچھ بدل دیا لیکن ہم خد کو کب بدل دیں گے؟ جی بی کا سب سے پسماندہ علاقہ دیامر ہے اور ہم حکومت کو گلے شکوے کرتے ہیں ہمارے ساتھ ناانصافی اور سوتیلا برتاؤ کا رونا روتے ہیں جبکہ غلطی اپنی ہوتی ہے ہم اپنے بچوں کو تعلیم کی طرف لا کے ہاتھ میں قلم تھما دیں تب دیامر کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔

ان ذاتی دشمنیوں کو ختم کرنے میں دیامر کے علماءکونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے اور دیامر کے عوام کو بھی صبر و تحمل سے کام لینا چاہئیے اور آپس میں اتفاق اتحاد محبت اور بھائی چارے کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور علماءکو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بیان تقاریر اور خطبوں میں اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کریں اور ہر شخص دیامر کی تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Exit mobile version